اسد عباس جب آخری سانسیں لے رہے تھے تو ان کے بڑے بھائی اور معروف گلوکار علی عباس، ان کے ساتھ دوسرے بڑے بھائی ظہیر عباس اور والد کے علاوہ ان کا گھرانہ شدید اذیت سے گزررہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت پاکستان کی فنکار برادری اور عوام یوم آزادی پر سرکاری تمغوں کی بندر بانٹ کی خوشی میں ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ کوئی فنکار، گلوکار، حکومتی نمائندہ نہ کوئی سماج اور ثقافت کا ٹھیکے دار،کوئی بھی ان کے جنازے میں شریک نہ تھا، ان کی بیماری سے اکثریت واقف تھی۔ یہ واقعہ پہلی بار بھی نہیں ہوا ہے۔

جن حالات میں اور جس بے بسی کے ساتھ اسد عباس ہمارے درمیان سےرخصت ہوا ہے اس کے لیے حکومت وقت، اس ملک کو چلانے کے ٹھیکے دار، ہمارا معاشرہ، پاکستان کی فنکار برادری، شوبز والے، انسانیت کے بھاشن دینے والے این جی اوز،کارپوریٹ سیکٹر، نام نہاد مخیر حضرات، پاکستان کا کوک اسٹوڈیو، ثقافتی ادارے اور تنظیمیں اور ان کے ساتھ ساتھ میں اور آپ، ہم سب پر اجتماعی تُف۔۔۔

پاکستان میں مسلسل ہونے والی مہنگائی، قدرتی آفات کا ظہور، حادثاتی اموات اور بہت کچھ ہم عوام دیکھ اور سہہ رہے ہیں۔ ہم میں سے کتنے مر بھی رہے ہیں۔ موت اٹل ہے مگر ظلم کے زور پر کوئی مارے اور مرے یہ تو ناحق ہے۔ اسی تناظر میں دیکھیں تو جس طرح سے ایک نوجوان گلوکار، جس نے اپنی خودی کو آخری وقت تک عزیز رکھا۔

انہوں نے اپنی جائیداد اور روپیہ پیسہ سب علاج پر خرچ کردیا، جب تک ممکن ہوا بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب نے بھی اس کی بیماری سے لڑائی میں اپنا حصہ ڈالا لیکن پھر دھیرے دھیرے اس جنگ میں بیماری اس نوجوان گلوکار پر حاوی ہونے لگی۔ اس خاندان کا سب کچھ بک گیا۔ اس نے زندگی کے آخری ایام فیصل آباد کے قریب اپنے آبائی گھر میں گزارے۔

وہ بہادر تھا۔ بیماری کو شکست دینے کے قوی ارادے سے مزید حوصلہ مند بنا۔ اس نے پھر اپنے چاہنے والوں سے امید باندھی۔ اپنے گھر اور شناسا لوگوں کے دائرے سے نکل کر اپنے موسیقی کے شعبے سے وابستہ افراد سے تعاون کی درخواست کی، پھر حکومت وقت اور معاشرے کے مخیر حضرات سے فریاد کی، اس کی آواز میں کئی لوگوں نے بھی اپنی آواز شامل کی مگر وہ انتہائی قلیل تعداد تھی۔ اکثریت نے صرف زبانی جمع خرچ کیا۔ بہت ساروں نے تو وہ بھی نہیں کیا صرف خاموشی، جیسے وہ موت سے کبھی مقابل نہیں ہوں گے۔

اسد عباس ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھا جس کا علاج بیرون ملک ممکن تھا مگر بھاری مالی اخراجات آڑے آتے رہے۔ 23 کروڑ کے ملک میں چند ایک افراد نے علامتی مدد کی لیکن اکثریت نے زبانی جمع خرچ کیا۔ سوشل میڈیا والے، یوٹیوبر اور پاکستان کا روایتی میڈیا اس نوجوان کے دکھ کو اپنی ٹی آر پی اور ٹرینڈنگ حاصل کرنے کے لیے بیچنے لگا اوراس کی نماز جنازہ ہونے تک اس دکھ کو فروخت کرنے میں یہ ذہنیت مصروف رہی۔ اب اس کی رنجیدہ موت کے بعد بھی یوٹیوب ایسی خرافات سے بھرا پڑا ہے۔

اس روشن چہرے والے حسین شخصیت کے مالک، شیریں آواز اور تاثیر بھرے لہجے میں کیفیت کی گائیکی کرنے والے گلوکار اور ایک انسان کی ساری خودی کو کچل کر یہ لوگ اس کے اوپر سے گزر گئے۔

اسد عباس بیماری کے ہاتھوں نہیں مرا وہ تو کئی برسوں سے ہمت کرکے اس جان لیوا بیماری سے لڑرہا تھا، وہ مرا ہم اور آپ جیسے تماش بینوں کی وجہ سے جنہوں نے اس کی کوئی مدد تو کیا کرنا تھی اس کی خودی کو ایک تماشے میں تبدیل کردیا۔

ہم میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے اس کی ساتھ کھنچوائی ہوئی تصویر بھی اب تک سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردی ہوگی، ویڈیو کو اسٹوری بنادیا ہوگا۔ وہ چلا گیا مگراس کے دکھ کو سب اپنی اپنی حیثیت اور اوقات کے مطابق خرچ کررہے ہیں۔

ہم میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو اس دکھ میں رنجیدہ ہیں۔ آئیے اس کو مل کر یادکرتے ہیں۔ اس بیماری نے اس کی والدہ اور بڑی بہن کو اس سے چھینا۔ اب اس کی بیوی سے شوہر اور دو بچوں سے ایک باپ کو بھی جدا کردیا۔ والد اور پھر باپ جیسی شفقت اور محبت کرنے والا بڑا بھائی اور معروف گلوکار علی عباس، اس رحلت نے انہیں بھی غمزدہ کردیا۔ اس کے مداح اور فنکار برادری کے وہ انسان دوست ستارے جو اس کی مدد کو آئے وہ سب اسد عباس کے جانے سے اداس اور غمزدہ ہیں۔ اس خوبصورت انسان اور سریلے گلوکار کی داستان زیست سے آپ سب واقف ہیں میں تو صرف اس کی رحلت کا پُرسہ لکھ رہاہوں۔

اس کی دلکش آواز میں جو دکھ موجود ہے وہ اس کی شدت دنیا میں دیکھ کرگیا ہے پھر بھی رسم دنیا نبھانے کی خاطر ایک نظر اس کی زندگی پرڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کس برق رفتاری سے اس نے وہ مرحلے طے کیے جن کو عبور کرنے میں لوگوں کی زندگیاں صرف ہوجاتی ہیں، پھر بھی منزل نہیں ملتی۔

یہ 38 سالہ نوجوان فیصل آباد میں پیدا ہوا۔ اسی شہر سے بنیادی تعلیم حاصل کی۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے گریجویشن کرنے کے بعدگھر سے ملنے والی موسیقی کی تربیت پر توجہ کی۔ اپنے بزرگوں سے جو کچھ حاصل کیا اس کو لے کر میدان میں نکلا اور ایک ایک کرکے سارے میدان مارتاچلا گیا۔ اس نے والد سے موسیقی کی بنیادی تربیت حاصل کی۔اس کا گھرانہ فیصل آباد کا معروف گھرانہ ہے جس کی کلاسیکی موسیقی، لوک موسیقی، نوحہ خوانی اور دیگر فنی شعبوں میں خدمات ہیں۔

اسد عباس نے پاکستان کے پہلے ملک گیر موسیقی کے مقابلے ’پاکستانی سنگیت آئی کون‘ کو جیتا اور انعام میں ایک کروڑ روپے اورایک مرسڈیز کار جیتی۔ اس کے بعد پاکستان کے معروف صوفی موسیقی کے بینڈ ’میکال حسن بینڈ‘ سے وابستہ ہوئے اور ان کے لیے ’لکس اسٹائل ایوارڈ‘ جیتا۔

ایسے اور بے شمار گیت جیسے میکال حسن بینڈ کے لیےگایا ہوا راگ اور گیت ’مالکونس‘ کو ساتھی نوجوان گلوکار رصاب عامر کے ساتھ ایسا گایا کہ اس راگ کا حق ادا کردیا ۔یہ راگ رات کے آخری پہر اور طلوع ہوتی صبح میں گایا جاتا ہے۔ ایسے راگ کو اسد عباس کیوں کر نہ ڈوب کر گاتا؟ وہ خود بھی تو صبح امید کا ایک طلوع ہوتا ہوا آدرش فنکار تھا۔

پاکستانی کوک اسٹوڈیو کے چھٹے سیزن میں ’کدے آوے ماہی‘ گا کر عالمگیر شہرت حاصل کرلی۔ معروف صوفی شاعر شاہ حسینؒ کے اس کلام کو گا کر وہ پاکستان کی جدید موسیقی کی تاریخ میں امر ہوگیا۔ ہرچند کہ اس کلام کو پاکستان کے کئی معروف گلوکار بھی گا چکے ہیں، مگرجو تاثیر اور شیرنی اسد عباس کی آواز نے گھولی، اس کی ندرت بے مثال ہے۔

اس کلام کے خلاصے میں کہی گئی بات میں شاعر نے محبوب کو پکارتے ہوئے اس کی دید کو عبادت کے مثل قرار دیاہے کہ تمہیں جی بھر کر دیکھتے ہوئے اداسی کی تمام باتیں کہہ ڈالوں کیونکہ میں نہ خوبصورت ہوں اور نہ ہی میرے پاس کوئی ہنر ہے، تم آجاو اور میرے عیب ڈھانپ لو۔ صوفی شاعر شاہ حسینؒ کی یہ کافی زندگی بھر کے لیے کافی ہے، اگر سمجھ آجائے۔ اسد عباس نے یہ کلام گاکر ہم پر وہ احسان کیا ہے جس کو ہم کبھی نہیں چکا سکیں گے۔ بقول اس صوفی شاعرشاہ حسینؒ۔۔۔

کدے آ وے ماہی گل لگ وے

تیری دید غریباں دا حج وے۔۔۔

جے توں آویں تے میں دُکھڑے سناواں

تینوں ویکھ لواں رج رج وے۔۔۔

نہ میں سوہنی نہ گُن پلے

میرے عیب نُمانی دے کج وے۔۔۔

تیری دید غریباں دا حج وے

کدے آ وے ماہی گل لگ وے۔۔۔

اسد عباس کی زندگی کا یہ سفر ابھی جاری تھا وہ دنیا بھر کی سیاحت کررہے تھے، گائیکی کے محور پر دنیا ان کے سامنے جھوم رہی تھی۔ وہ صوفیوں کا کلام مادیت پرست معاشرے کے سامنے پیش کررہے تھے۔ انہوں نے اپنی الگ ویڈیوز بھی بنائیں، کئی گلوکاروں کو ان کی دھنیں اور کلام گاکر عقیدت کا نذرانہ پیش کیا، نوحہ خوانی بھی کی۔ پاکستانی ڈراموں کے ٹائٹل گیت بھی گائے اور بے شمار کنسرٹس بھی کیے، لاتعداد محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے چاہنے والوں کا حلقہ وسیع کرتے چلے گئے۔

یہ سلسلہ بیماری کی پکڑ میں آنے کے باجود جاری تھا۔ وہ بستر مرگ سے بھی صوفیوں کاکلام گاکر، موت کے مدمقابل نہایت حوصلے سے زندگی کے گیت گارہے تھے۔ پھر کسی کی نظر بد انہیں لگ گئی اور وہ ستارہ جو تیزی سے عروج پارہا تھا وہ ٹوٹ کے بکھرا اور ختم ہوگیا۔ وہ اپنی زندگی اور گائیکی کے جوبن پر تھا اور پھر ان کی زندگی کی کہانی میں جدائی کاموڑ آگیا۔ بقول رحمٰن فارس۔۔۔

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

تبصرے (0) بند ہیں