علاقائی استحکام کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں پاکستان کے ساتھ مشترکہ مفاد ہے، امریکا

اپ ڈیٹ 17 اگست 2023
امریکی عہدیدار نے کہا کہ اپنے شہریوں کی  سلامتی کے لیے حکومت کی اپنی کوششوں کی  حمایت کرتے ہیں جس سے قانون کی حکمرانی کو فروغ ملے—فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکی عہدیدار نے کہا کہ اپنے شہریوں کی سلامتی کے لیے حکومت کی اپنی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں جس سے قانون کی حکمرانی کو فروغ ملے—فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکا نے کہا ہے کہ علاقائی استحکام کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں اس کا پاکستان کے ساتھ مشترکہ مفاد ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بیان امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کی جانب سے سامنے آیا ہے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ علاقائی استحکام کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں پاکستان کے ساتھ ہمارا مشترکہ مفاد ہے اور عسکریت پسندوں اور دہشت گرد گروپوں سے نمٹنے کے لیے ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

امریکی عہدیدار کی جانب سے یہ بیان خطے میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سامنے آیا ہے۔

ایک حالیہ بیان میں امریکا میں تعینات پاکستان کے سفیر مسعود خان نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر عسکریت پسند گروپ پاکستان میں اہداف پر حملوں کے لیے امریکی فوجیوں کی جانب سے افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑے گئے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جب امریکا نے 2021 میں افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا کیا تو وہ تقریباً 7 ارب ڈالر مالیت کا فوجی سازوسامان اور ہتھیار چھوڑ کر گیا تھا، ان فوجی آلات اور ہتھیاروں میں اسلحہ، مواصلاتی آلات اور بکتر بند گاڑیاں بھی شامل تھیں۔

واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے، اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اسلام آباد کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا امریکا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے تیار ہے، جس پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے کہا کہ ہم افغانستان سے متعلق معاملات کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کرنے کے لیے پاکستانی قیادت کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں، ان رابطوں میں انسداد دہشت گردی کے لیے بات چیت اور دیگر دو طرفہ مشاورت بھی شامل ہے۔

امریکی عہدیدار نے مزید کہا کہ ہم دہشت گردی سے نمٹنے اور اپنے شہریوں کی سلامتی اور تحفظ یقینی بنانے کے لیے حکومت کی اپنی ان تمام کوششوں کی بھی حمایت کرتے ہیں جس سے قانون کی حکمرانی کو فروغ ملے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈی (پی آئی سی ایس ایس) کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں رواں برس کی اسی مدت کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں حیران کن طور پر 79 فیصد اضافہ ہوا، ان میں سے سب سے زیادہ حملے صوبہ خیبر پختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع میں ہوئے۔

ایک حالیہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی نے جنوبی ایشیا کو انتہائی خطرے والا خطہ قرار دیا جہاں کئی ریاستیں دہشت گردی کے حملوں کا شکار ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ القاعدہ، داعش اور ان سے منسلک دیگر دہشت گرد جیسے کہ القاعدہ بھارتی برصغیر، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور داعش خراسان سرگرم رہی، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس خطے میں دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں داعش خراسان کی جانب سے کی گئیں۔

بعد ازاں بدھ کے روز اپنی بریفنگ میں سبکدوش ہونے والی پاکستانی حکومت کی جانب سے ایران کے ساتھ کیے گئے تجارتی معاہدوں کے بارے میں سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ یہ معاملہ پاکستان اور ایران کے درمیان ہے، یہ وہ معاملہ ہے جس پر میں چاہوں گا کہ ہمارے پاکستانی شراکت دار اس پر بات کریں، اس بارے میں میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں