اکثر لوگ پروپیگنڈے کو ایک ایسے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں کسی ایسے پیغام کو جس کا ماخذ معلوم ہو ابلاغ کے مختلف ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تکرار کے ساتھ اور زور دے کر بیان کیا جاتا ہے۔

اس کی مثالوں میں اکثر نازی جرمنی (45ء-1933ء)، فاشسٹ اٹلی (43ء-1922ء)، کمیونسٹ سوویت یونین (خاص طور پر 1924ء سے 1953ء کے درمیان)، کمیونسٹ چین (1966ء سے 1976ء کے درمیان ثقافتی انقلاب کے دوران) اور تھیوکریٹک ایران (1980ء کی دہائی میں) میں ریاست اور حکومت کی جانب سے کیا جانے والا پروپیگنڈا شامل ہے۔ اسی طرح کا پروپیگنڈا غیر آمرانہ حکومتوں میں بھی کیا گیا اور ایسا خاص طور پر دوسری جنگ عظیم (1945ء-1939ء) کے دوران ہوا۔

سیاسیات کے ماہرین پروپیگنڈے کو عموماً 3 اقسام یعنی سفید پروپیگنڈا (وائٹ پروپیگنڈا)، سرمئی پروپیگنڈا (گرے پروپیگنڈا) اور سیاہ پروپیگنڈا (بلیک پروپیگنڈا) میں تقسیم کرتے ہیں۔ ’سفید‘ پروپیگنڈے کے ماخذ اور اس کے ایجنڈے کا کھل کر اظہار کیا جاتا ہے۔ اس میں نازی جرمنی کی حکومت کی جانب سے یہودیوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والے پمفلٹ بھی شامل ہوسکتے ہیں اور اس میں وہ مہذب پروپیگنڈا بھی شامل ہوسکتا ہے جس میں کوئی تجارتی کمپنی خود کو ملنے والی کسی ایوارڈ کا اعلان کرے حالانکہ اکثر اوقات ان ایوارڈز کے لیے کمپنی نے خود ادائیگی کی ہوتی ہے۔

سرمئی پروپیگنڈے کی شناخت کرنا کچھ مشکل ہوسکتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کا اصل منبع یا ماخذ ظاہر نہیں ہوتا۔ اس پروپیگنڈے میں اپنے پیغام کو پہنچانے کے لیے بلواسطہ ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اخبارات میں وہ مضامین ’پلانٹ‘ کرنا ہے جو ’غیرجانبدار‘ نظر آنے والے خواتین و حضرات نے لکھے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ لوگ پروپیگنڈے کے لیے کام کررہے ہوتے ہیں۔

حال ہی میں ایک ویب سائٹ دی انٹرسیپٹ پر پاکستان کے سائفر اسکینڈل کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر بھی مبینہ طور پر اسی پروپیگنڈے کی مثال لگتی ہے۔ اس خبر کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے ویب سائٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس خبر کا ذریعہ ’پاکستانی فوج میں کوئی فرد‘ ہے۔ اس کے باوجود اس حوالے سے ابہام باقی رہا۔

بعدازاں اس خبر کو دینے والے افراد کی سوشل میڈیا پوسٹوں سے بھی ان کا عمران خان کا حامی ہونا نظر آیا۔ اس خبر کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ وہ آزادانہ بنیاد پر اس سائفر کی تصدیق نہیں کرسکے جو انہیں فراہم کیا گیا تھا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اس کی بنیاد پرایک پوری خبر تیار کردی۔ سرمئی پروپیگنڈے میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسے پروپیگنڈے کے فروغ کے لیے بطور ذریعہ استعمال کیا جارہا ہوتا ہے وہ بھی اس سے بے خبر ہوتا ہے۔

کمرشل ادارے بھی سرمئی پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ وہ خاموشی سے ایک معروف ماہر کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور اسے اپنے ادارے یا کمپنی کے نہیں بلکہ اپنی مصنوعات کے ’فوائد‘ کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس پروپیگنڈے کا انحصار ایک ’غیر جانبدار‘ پیغام رساں پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر 1920ء کی دہائی کے آخر میں ڈبہ بند بیکن بنانے والی ایک امریکی کمپنی نے ایک معروف ڈاکٹر کی خدمات حاصل کیں۔ اسے یہ دعویٰ کرنے کے لیے ادائیگی کی گئی تھی کہ صبح کے وقت بیکن کھانا ایک صحت مند ترین ناشتہ ہے۔

یہ طریقہ کار اکثر ان کمپنیوں کی جانب سے اختیار کیا جاتا ہے جن پر مضر صحت اشیا بنانے اور فروخت کرنے کے حوالے سے تنقید ہوتی ہے۔ 1940ء سے 1960ء کے درمیان امریکا کی سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے ایسی ’تحقیقات‘ پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے جن میں اس بات کو ’ثابت‘ کرنا تھا کہ سگریٹ نوشی اتنی خطرناک نہیں ہے جتنا کچھ آزاد تحقیقات میں بتایا گیا ہے۔

تجارتی کمپنیاں دیگر کمپنیوں اور خاص طور پر اپنے حریفوں کے خلاف بھی سرمئی پروپیگنڈا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، پیک دودھ بنانے والی کمپنی حریفوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں بظاہر ’غیر جانبدار‘ لوگوں کے ذریعے پلانٹڈ ’تحقیق‘ کرواسکتی ہے اور سوشل میڈیا پوسٹس لگوا سکتی ہے۔ یہاں سرمئی اور سیاہ پروپیگنڈے کے درمیان فرق ختم ہونے لگتا ہے۔

سرمئی پروپیگنڈے کی طرح، ’سیاہ‘ پروپیگنڈا بھی اپنا منبع و ماخذ ظاہر نہیں کرتا۔ لیکن سرمئی پروپیگنڈے کے برعکس سیاہ پروپیگنڈا ان لوگوں سے غلط معلومات منسوب کرتا ہے جو اس کا ہدف ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئی حکومت ایک ایسا پیغام یا بیانیہ گھڑ سکتی ہے جو اس کے یا ملک کے مفادات کے خلاف ہو اور پھر اسے اپنے اندرونی اور بیرونی مخالفین سے منسوب کر سکتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے ڈنمارک کے اوپر پمفلٹ گرائے تھے جبکہ ڈنمارک پر اس وقت جرمن افواج کا ہی قبضہ تھا۔ ان پمفلٹ میں ڈنمارک کے شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ نازیوں سے جان چھڑانے کے لیے روسی حملے کو قبول کرلیں۔ ان پمفلٹ کو ڈنمارک کی آزادی کے لیے لڑنے والے ایک گروہ سے منسوب کیا گیا جبکہ یہ حقیقت نہیں تھی۔ اس کے پیچھے اس گروہ کو بے دین کمیونسٹ کے طور پر دکھانا مقصود تھا۔

اسی جنگ کے دوران برطانیہ نے بھی کچھ جرمن ریڈیو اسٹیشن قائم کیے تھے۔ نازی جرمنی میں اکثر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ واقعی حقیقی جرمن ریڈیو اسٹیشن ہیں۔ ان ریڈیو اسٹیشن سے غیر محسوس انداز میں نازی مخالف جذبات کا پرچار کیا جاتا تھا۔ اس سے جرمن سامعین الجھاؤ کا شکار ہوتے تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ یہ ریڈیو اسٹیشن نازی ہی چلا رہے ہیں۔

دی گارڈین کے مئی 2022ء کے ایک فیچر کے مطابق ’برطانوی حکومت نے سرد جنگ کے اپنے دشمنوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہائیوں تک سیاہ پروپیگنڈا کیا جس میں جعلی ذرائع سے خبروں اور پمفلٹس کا استعمال کیا گیا‘۔

اس فیچر میں کہا گیا کہ ’اس مہم میں مذہبی قدامت پسندی اور بنیاد پرست نظریات کو فروغ دے کر مسلمانوں کو بھی کمیونزم کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی گئی‘۔ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے تیار کی جانے والی دستاویزات جنہیں بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے مسلمان گروہوں اور سوویت یونین سے منسوب کیا گیا تھا ان میں اسرائیل کی مخالفت بھی کی گئی تھی تاکہ وہ حقیقی نظر آئیں۔

1990ء کی دہائی میں سابق پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اکثر اس بات پر افسوس کا اظہار کرتی نظر آئیں کہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اکثر دائیں بازو کے رسائل و جرائد کو ان کے جعلی بیانات شائع کرنے کے لیے استعمال کیا تاکہ اس پروپیگنڈے کو ہوا دی جائے کہ وہ ملک کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

1992ء میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے ایم کیو ایم کے دفتر سے ایک نقشہ برآمد کیا۔ نقشے میں کراچی اور حیدرآباد کو ایک الگ ملک کے طور پر دکھایا گیا تھا۔اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسے ایم کیو ایم نے شائع کیا تھا۔ لیکن ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد ایک سابق انٹیلی جنس افسر نے اعتراف کیا کہ وہ نقشہ جعلی تھا۔

بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف سرمئی اور سیاہ پروپیگنڈے کے لیے بدنام ہے۔ اپریل 2023ء میں ایک عام سے ٹوئٹر اکاؤنٹ نے پاکستان میں تالا بند قبر کی تصویر پوسٹ کی۔ پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قبر ایک خاتون کی تھی اور اس پر تالہ لگایا گیا تھا تاکہ میت کو ان لوگوں سے محفوظ رکھا جاسکے جو نیکروفیلیا میں ملوث ہیں۔

اس خبر کو مین اسٹریم کے مختلف ہندوستانی خبر رساں اداروں نے تیزی سے پھیلایا۔ تاہم حقائق کی جانچ کرنے والی ایک آزاد ویب سائٹ نے اس کہانی کا پردہ فاش کیا اور بتایا کہ یہ تصویر دراصل پاکستان کی نہیں بلکہ ہندوستان کی ہے۔

پاکستان میں سیاہ پروپیگنڈے کو اب اکثر وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جنہیں مبینہ طور پر سابق ​​فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے مخالفین کو برا دکھانے کے لیے اس پروپیگنڈے کی تربیت دی تھی۔ لیکن ان افراد کو موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے گھاس نہ ڈالی۔ یوں اب عمران خان کے مخالفین اور یہاں تک کہ موجودہ اسٹیمبلشمنٹ کے ممبران سے منسوب جعلی حوالے اور دستاویزات اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔

اگرچہ جلد ہی ان کی تردید ہوجاتی ہے لیکن آج کے دور میں سیاہ پروپیگنڈا ان لوگوں کے ذہنوں کو اپنا ہدف بناتا ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تردید پر شبہات ظاہر کیے جاتے ہیں جبکہ جس چیز کی تردید کی جاتی ہے اس کی ’صداقت‘ لوگوں کے ذہنوں میں برقرار رہتی ہے۔


یہ مضمون 20 اگست 2023ء کو ڈان اخبار ای او ایس میگزین میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں