مظفر گڑھ : نابالغ لڑکی سے مبینہ زیادتی، جبری اسقاط حمل کے الزام میں 3 گرفتار

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2023
کچھ رپورٹس کے مطابق پنجاب جنسی تشدد کے زیادہ واقعات کی وجہ سے رہنے کے لیے مشکل صوبہ رہا ہے — فائل فوٹو
کچھ رپورٹس کے مطابق پنجاب جنسی تشدد کے زیادہ واقعات کی وجہ سے رہنے کے لیے مشکل صوبہ رہا ہے — فائل فوٹو

مظفر گڑھ پولیس نے ایک نابالغ بچی کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی، بلیک میل کرنے اور اسقاط حمل پر مجبور کرنے کے الزام میں درج مقدمے میں نامزد 4 میں سے 3 افراد کو گرفتار کرلیا۔

مظفر گڑھ کے رنگپور پولیس اسٹیشن میں رات دیر گئے متاثرہ لڑکی کی ماں کی طرف سے پہلی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرائی گئی تھی۔

ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 376 (ریپ کی سزا) اور 292 کے تحت درج کی گئی ہے اور کیس میں تین مرد اور ایک عورت کا نام شامل کیا گیا ہے۔

شکایت کنندہ کا کہنا ہے کہ رواں سال 10 مارچ کی شام 5 بجے ان کی 14 سے 15 سالہ بیٹی اپنے گھر پر اکیلی تھی اور اہل خانہ کسی مقامی تقریب میں گئے ہوئے تھے، اس وقت مشتبہ افراد ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور بندوق کی نوک پر لڑکی کو ایک کمرے میں لے گئے۔

بچی کی والدہ کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان میں سے ایک نے ان کی بیٹی کو بندوق کی نوک پر زیادتی کا نشانہ بنایا جبکہ دوسرا نابالغ کی فحش ویڈیوز بناتا رہا اور اپنے موبائل فون سے تصاویر لیتا رہا۔

والدہ نے مزید کہا کہ دونوں نے لڑکی کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ان کے بارے میں کسی کو بتایا تو وہ اس کی برہنہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کر دیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ مرد اکثر بچی کے ساتھ زیادتی کرتے تھے، مزید کہا کہ 3 ستمبر کو دونوں افراد نے لڑکی کو اپنے گھر میں اکیلا پایا اور اندر داخل ہوئے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے ایک ملزم بندوق کی نوک پر ایک کمرے کے اندر لے گیا اور بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا جب کہ دوسرے نے پہرے پر کھڑے ہو کر ویڈیو اور تصاویر بنائیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ مبینہ ریپ کے دوران، لڑکی نے اپنی کمر میں شدید درد محسوس کیا اور اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں مبینہ ملزمان میں سے ایک اطائی نے اس کا چار ماہ کا حمل ساقط کر دیا گیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ جب بچی کے گھر والے گھر واپس آئے اور اس کو لاپتا پایا، تو وہ باہر گئے لیکن اس کو ہسپتال میں پایا گیا۔

پولیس نے چار ملزمان میں سے تین کو گرفتار کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ شائع ہونے والے حقوق گروپ ساحل کی طرف سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران کم از کم 12 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

کچھ رپورٹس کے مطابق پنجاب جنسی تشدد کے زیادہ واقعات کی وجہ سے رہنے کے لیے مشکل صوبہ رہا ہے۔

تقریباً ایک سال قبل اس وقت کے پنجاب کے وزیر داخلہ عطااللہ تارڑ نے خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر’ایمرجنسی’ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے بھر میں روزانہ تقریباً چار سے پانچ خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں