انگلینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ایک سروے میں حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے کہ اسپتال میں کام کرنے والی زیر تربیت ڈاکٹرز کو سینئر مرد ڈاکٹرز کی جانب سے آپریشن تھیٹرز میں ہراساں اور ریپ کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

یہ انکشاف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں سامنے آیا ہے، اس رپورٹ کو برٹش جرنل آف سرجری میں بھی شائع کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق سروے میں ان خواتین سے بات کی گئی جنہیں آپریشن تھیٹرز میں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ انگلینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروس اسپتال میں سینیئر مرد سرجنز کے ہاتھوں زیر تربیت خواتین سرجنز کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

بی بی سی کو شئیر کیے گئے اعدادوشمارکے مطابق تقریباً 2 تہائی خواتین سرجن ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی ہیں جبکہ ایک تہائی خواتین ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے 5 سال میں ساتھیوں کی جانب سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنی ہیں۔

خواتین ڈاکٹرز نے خدشہ ظاہر کیا کہ واقعہ پولیس میں رپورٹ کروانے کے بعد ان کے کرئیر کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور انہیں اس بات پر یقین ہے کہ این ایچ ایس اسپتال ان کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسپتال کے رجسٹرڈ سرجنز (مرد اور خواتین) کی شناخت مکمل طور پر پوشیدہ رکھنے کی شرط پر سروے میں ایک ہزار 434 لوگوں نے حصہ لیا جس میں نصف خواتین سرجن تھیں۔

سروے کے مطابق اسپتال میں 63 فیصد خواتین کو اپنے ساتھیوں کی جانب سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا۔

30 فیصد خواتین کو ان کے ساتھیوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

تقریباً 11 فیصد خواتین نے کہا کہ انہوں نے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جہاں ان کی ملازمت کے امکانات کے سلسلے میں ان کی مرضی کے خلاف انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

ریپ کے کم از کم 11 واقعات رپورٹ ہوئے اور 90 فیصد خواتین اور 81 فیصد مردوں نے کسی نہ کسی طرح کی جنسی بدفعلی کا مشاہدہ کیا تھا۔

رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 24 فیصد مردوں کو بھی جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یونیورسٹی آف ایکسیٹر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کرسٹوفر بیگینی کا کہنا تھا کہ ’رپورٹ میں سامنے آنے والے نتائج سے سرجری کے پیشے پر عوام کا اعتماد متزلزل ہونے کا امکان ہے۔‘

یونیورسٹی آف سرے کی کنسلٹنٹ سرجن پروفیسر کیری نیو لینڈز کا کہنا ہے کہ زیر تربیت جونیئر خاتون ڈاکٹرز کے ساتھ ایک سینیئر ڈاکٹر ان کا نگران ہوتا ہے، سینئر ڈاکٹرز کی جانب سے زیر تربیت ڈاکٹرز کے ساتھ بدسلوکی اور ہراساں کرنے کے واقعات اور خواتین کی جانب سے ان واقعات کو رپورٹ نہ کرنا خاموش کلچر ہے کیونکہ لوگ اپنے مستقبل اور کریئر کے بارے میں خوف کی وجہ سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

انگلینڈ کے رائل کالج آف سرجنز کے صدر ٹم مچل کا کہنا تھا کہ یہ نتائج ’واقعی چونکا دینے والے‘ اور ’ناقابل یقین حد تک پریشان کن‘ اور ’سرجیکل شعبے کے لیے شرمندگی کا باعث‘ ہیں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ایک عام مسئلہ ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں زیرو ٹالرینس کا کلچر قائم کرنے کی ضرورت ہے، یعنی ایسا نظام بنایا جائے جس کے تحت متاثر ہونے والے افراد کو یہ یقین دلایا جائے کہ وہ آگے بڑھ سکتے ہیں، جنسی ہراسانی کے واقعات کو رپورٹ کر سکتے ہیں اور ان کے خدشات کو سنجیدگی سے لے سکتے ہیں۔‘

این ایچ ایس انگلینڈ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر بنتا سلطان نے کہا کہ رپورٹ میں ’ناقابل یقین حد تک مشکل باتیں ہیں‘ اور ’واضح شواہد‘ پیش کیے گئے ہیں کہ اسپتالوں کو ’سب کے لیے محفوظ‘ بنانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کررہے ہیں جبکہ کمپنی کے چیئرپرسن اسٹیو برائن نے کہا ہے کہ یہ انکشافات ’حیران کن‘ ہیں۔

اسٹیو برائن کا کہنا تھا کہ ’این ایچ ایس کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اسپتال میں کام کرنے والا تمام عملے کو محفوظ ماحول ملے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے منیجرز کو جواب دہ ٹھہرانا چاہیے۔‘

تبصرے (0) بند ہیں