پنجاب میں کپاس کی فصل پر سفید مکھیوں کے حملے سے پریشان محکمہ زراعت پنجاب نے کیڑے مار ادویات کے اسپرے کا کام شروع کردیا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں لگ بھگ نصف فصلوں کو پہلے ہی نقصان پہنچ چکا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف متاثرہ کھیتوں بلکہ قریبی علاقوں میں کیڑے مار دوا لگانے کے لیے ڈرون اور طاقتور اسپرے مشینوں کا استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ سفید مکھی کیڑے مار دوا کے اثرات سے بچنے کے لیے ملحقہ کھیتوں میں پناہ لیتی ہے۔

13 ستمبر کو سیکریٹری زراعت افتخار سہو نے ایکسٹنشن اینڈ پیسٹ مینجمنٹ ونگ کے اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ کپاس کی فصلوں کا دورہ کیا تاکہ کیڑوں پر قابو پانے کے آپریشن کی نگرانی کی جاسکے۔

سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر صغیر احمد کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سفید مکھی کی افزائش خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے، انہوں نے کہا کہ ایک پتے پر تقریباً 100 سفید مکھیاں پائی گئیں اور بدقسمتی سے اس مرحلے پر متاثرہ پودوں کو بچانے کے لیے کوئی بھی کیڑے مار دوا زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوسکتی۔

ڈاکٹر صغیر احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ اب تک 50 فیصد سے زیادہ فصل کو نقصان پہنچ چکا ہے، اور ان کا نہیں خیال کہ پنجاب اس سال فصلوں کی پیداوار کا 83 لاکھ کا متوقع ہدف حاصل کر پائے گا۔

ڈاکٹر صغیر احمد (جو کیڑے مار دوا بنانے والی کمپنی تارا گروپ کے چیف سائنسدان بھی ہیں) نے کہا کہ زیادہ درجہ حرارت، ناقص پانی اور خاص طور پر نمکیات سے متاثرہ کھیتوں میں سفید مکھی اور میلی بگ کے پھیلنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

جننگ فیکٹری نے آگاہ کیا کہ کپاس کی آمد میں 50 فیصد کمی اور پیداوار میں 15 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔

کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق نے ڈان کو بتایا کہ جننگ یونٹس اور اوپن مارکیٹ میں کپاس کی آمد تقریباً آدھی رہ گئی ہے، جس کی ایک وجہ کیڑوں کا حملہ ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کاشتکار مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ پر پیداوار میں کمی کی اطلاعات کے پیش نظر بہتر قیمتوں کی امید میں اپنی پیداوار کو ذخیرہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ رحیم یار خان اور کاٹن بیلٹ کے دیگر علاقوں سے کپاس کی پیداوار میں تقریباً 15 فیصد کمی دیکھی گئی۔

کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان کا اندازہ ہے کہ کپاس کی آمد میں کمی کے باوجود رواں سیزن میں پیداوار کا تناسب 15 ستمبر تک گزشتہ سال کے اعداد و شمار سے 67 فیصد زیادہ ہوگا۔

تاہم وہ یہ اندازہ نہیں لگاتے کہ موجودہ سیزن کے لیے کپاس کی کُل پیداوار ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی، وفاقی کمیٹی برائے زراعت نے ابتدائی طور پر کپاس کی کُل پیداوار کے لیے ایک کروڑ 27 لاکھ کا ہدف مقرر کیا تھا۔

اسی دوران ڈی جی خان کے ڈائریکٹر زراعت (ایکسٹنشن) عابد حسین نے ڈان کو بتایا کہ 89 ایکڑ رقبے پر چار ڈرونز سے اسپرے کیا گیا ہے اور 2 ہزار 500 ایکڑ پر پاور اسپرے کے ذریعے اسپرے کیا گیا ہے۔

ڈی جی خان میں کپاس کی پیداوار کا کُل رقبہ تقریباً 9 لاکھ 71 ہزار ایکڑ ہے جس میں سے 3 لاکھ 69 ہزار ایکڑ کپاس کا پیداواری رقبہ ضلع راجن پور میں واقع ہے۔

مقامی ذرائع نے ڈان کو تصدیق کی کہ سفید مکھی کے حملے سے کپاس کی فصل کے تقریباً 20 فیصد پیداواری علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ بقیہ 10 سے 20 فیصد رقبے کو سفید مکھیوں کے حملے کا سامنا ہے، تاہم اگر متاثرہ علاقوں میں ہیلی کاپٹر، ڈرون اور پاور اسپرے مشترکہ طور پر آپریشن شروع کر دیں تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

مقامی کپاس کے کاشتکار نصراللہ دریشک نے ڈان کو بتایا کہ حکومت بڑے کسانوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں جبکہ دو سے تین ایکڑ اراضی والے چھوٹے کاشتکاروں کو سفید مکھی کے خلاف اسپرے میں مزید مدد کی ضرورت ہے۔

ایک مقامی کیڑے مار دوا کمپنی کے ڈیلر نے ڈان کو بتایا کہ نجی اسپرے کمپنیاں بھی چھوٹے کاشتکاروں کے لیے کوئی اسپرے پروگرام شروع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، وہ ان کاشتکاروں کو مدد فراہم کر رہے ہیں جن کے پاس پاور اسپرے یا بڑی زمینیں ہیں۔

بہاولنگر میں ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت چوہدری لطیف اللہ کے مطابق صرف 9 دنوں میں 18 ہزار ایکڑ کے قریب کپاس کی فصل متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سفید مکھی کا حملہ پانی کی قلت اور گرم موسم کی وجہ سے ہوا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں