نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی ہدایت پر بین الوزارتی صحت اور آبادی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں ڈینگی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’لوگوں کی حفاظت کے لیے ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے لیے وفاق اور صوبوں کی جانب سے مؤثر اور مربوط حکمت عملی بنائی جائے گی۔

ڈاکٹر ندیم جان کا کہنا تھا کہ عوام کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مربوط اقدامات کو یقینی بنائیں،کورونا وائرس کے تجربات سے سیکھتے ہوئے بیماریوں کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت تشکیل دی جائیں، ہیپاٹائیٹس کی روک تھام کے لیے وفاقی اور صوبے مل کر از سر نو پروگرام ترتیب دیں۔

واضح رہے کہ اکتوبر میں ڈینگی کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں اور نومبر میں کم درجہ حرارت کی وجہ سے ان کیسز میں کمی آنے لگتی ہے۔ پاکستان میں 1994 کے بعد ڈینگی کے کیسز میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، 2005، 2011 اور 2019 میں بڑے پیمانے پر ڈینگی پھیلنے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔

2005 میں کراچی سے ڈینگی کے تقریباً 6 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے 52 اموات ہوئی تھیں، 2011 میں لاہور میں 21 ہزار کیسز سمیت 350 اموات اور 2019 میں ملک بھر سے تقریباً 50 ہزار کیسز سمیت 79 اموات رپورٹ ہوئی تھیں۔

پنجاب کے وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نے اجلاس کو بتایا کہ صوبے میں ڈینگی ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کام کر رہا ہے جو ڈینگی کی وباء سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے اور ان پر عمل درآمد میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگرانی کے نظام اور کمیونٹی کی شمولیت کے اقدامات نے نہ صرف ڈینگی کی قبل از وقت تشخیص میں مدد کی ہے بلکہ اس سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں عوامی شعور میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

خیبرپختونخواکے وزیر صحت ڈاکٹر ریاض انور نے اجلاس کو بتایا کہ صوبے میں ڈینگی کی بیماری کے پھیلاؤ کی نگرانی اور انتظام کے لیے نگرانی کی سرگرمیاں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبے نے ڈینگی کے کیسز کو ٹریک کرنے اور ممکنہ وباء کی نشاندہی کرنے کے لیے ایک جامع نگرانی کا نظام نافذ کیا ہے۔

سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے شرکاء کو اینٹومولوجیکل سرویلنس، لیبارٹری نیٹ ورکس میں اضافے اور ڈینگی کیسز کی تعداد کو کم کرنے کے لیے ملٹی سیکٹرل اپروچ اپنانے کے بارے میں آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں مقامی حکومت نے ڈینگی کو کنٹرول اقدامات کے لیے یونین کونسل کی سطح پر ریپڈ رسپانس ٹیمیں بھی تشکیل دی ہیں۔

ہیپاٹائٹس سی کے کنٹرول پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ندیم جان نے تمام صوبوں کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی اور رواں سال ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام شروع کرنے پر زور دیا ہے، اس پروگرام کے ذریعے ہیپاٹائٹس سی کے تمام مریضوں کے لیے تشخیصی خدمات اور ضروری ادویات کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی کا ایجنڈا حکومت پاکستان کی اولین ترجیح ہے، اس سلسلے میں تاریخ میں پہلی بار حکومت رواں سال نومبر میں ایک گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گی جس میں دنیا بھر سے رہنماؤں، اعلیٰ ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا جائے گا۔

وزیر صحت نے کہا کہ ملک بھر میں ڈرگ لائسنس کے اجراء اور لیبارٹریوں کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مارکیٹ سے جعلی ادویات کے خاتمے کے لیے یونیفارم گائیڈلائن پر مبنی ایک جامع نظام تشکیل دے رہے ہیں، اس تناظر میں ڈریپ تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک مشترکہ مفاہمت نامے پر دستخط کرے گا۔

اس کے علاوہ اجلاس کے دوران ڈاکٹر ندیم جان نے پولی کلینک اسپتال کی انتظامیہ کو طبی سامان کو کمپیوٹرائز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ ہدایت گزشتہ روز اسپتال کے دورے کے دوران مریضوں سے ان کے مسائل پوچھنے اور اسپتال انتظامیہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے دوران دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر فارمیسی کا ریکارڈ جلد از جلد کمپیوٹرائزڈ نہ کیا گیا تو سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

وزیر صحت نے آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ (او پی ڈی) سمیت وارڈ کا دورہ کیا اور مریضوں کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا بھی جائزہ لیا۔

ندیم جان نے فارمیسی اور اسپتال کی ایمرجنسی کا بھی دورہ کیا اور زیر علاج مریضوں سے ملاقات کی۔

ڈاکٹر ندیم جان نے ادویات کی سپلائی کو کمپیوٹرائز نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

مریضوں کو ادویات کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے، انہوں نے کہا کہ ادویات کی فراہمی میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی اور ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں