خاندان کے تقریباً تمام بڑے عنایت خان کی زوجہ شاداں بیگم کے یہاں موجود تھے۔ دوسری شادی کرنے کے ڈیڑھ سال بعد آخر عنایت خان پکڑے گئے تھے وہ بھی جب شاداں نے ایک دن اپنے بھائی کو ان کا پیچھا کرنے بھیجا۔ عنایت خان ویسے تو خوب تیار ہوکر ہی دوستوں کی طرف جاتے تھے مگر کچھ دن سے داڑھی میں خضاب بے حساب لگ رہا تھا اور عطر کی شیشیوں کے بجائے جام لڑھکائے جارہے تھے۔ شاداں اس صورتحال سے بالکل شاداں نہ تھیں۔

اس ’خاندانی‘ سناٹے میں آخر ان کا سالا بول پڑا۔

’عنایت بھئ جان تساں پتا ای کے نی لگن ڈتا بھئی ڈوجی ذال گھن آئے او تے نال اک بال وی ہے‘ (عنایت بھائی آپ نے پتا ہی نہیں چلنے دیا کہ آپ دوسری بیوی لے آئے ہیں اور ایک بچہ بھی ہے)۔

عنایت خان نے ٹھنڈی آہ بھر کے مسکین سی شکل بنائی اور کہنے لگے کہ ’بس سائیں! اللّٰہ پردے رکھنڑ آلا ہے‘ (بس بھائی! اللّٰہ پردہ رکھنے والا ہے)۔

دوسری شادی کرنے کے ڈیڑھ سال بعد آخر عنایت خان پکڑے گئے تھے اور تمام بڑے ان کے ہاں جمع تھے
دوسری شادی کرنے کے ڈیڑھ سال بعد آخر عنایت خان پکڑے گئے تھے اور تمام بڑے ان کے ہاں جمع تھے

یہ سن کر بزرگوں کی تو ہنسی چھوٹ گئی مگر عورتوں کا غصہ دو چند ہوگیا۔ خیر بعد میں عنایت خان کی جو درگت بنی اس سے قطع نظر موضوع کی طرف آتے ہیں کہ پردے کی اہمیت کا اندازہ لگائیں کہ یہ کتنی اہم چیز ہے کہ اگر عنایت خان کا پردہ قائم رہتا تو ان کا بیڑا پار تھا مگر افسوس۔۔۔

مجھے جو بچپن میں پردے کی پہلی آواز یاد ہے وہ ان مزدورں کی تھی جو آس پڑوس میں کسی گھر کی چھت پر چڑھ کر کام کرنے سے پہلے یہ آواز لگاتے تھے کہ ’پردے آلے پردہ کر لو‘۔

آج کل کا معلوم نہیں کیونکہ ہمارے محلے میں تو تمام گھر پرانے ہوچکے ہیں اور کوئی خالی پلاٹ بچا ہی نہیں۔

انہیں پرانے گھروں کے اکھڑے پلستروں پر جس طرح رنگ برنگے پردے، پردہ ڈال دیتے ہیں بالکل اسی طرح پیسہ انسان کی اصل شخصیت پر پردہ ڈال دیتا ہے اور وہ غیر معزز فَٹ سے معززین میں شمار ہونے لگتے ہیں۔ پیسہ جہاں بہت سے پردے ڈالتا ہے وہاں بہت سے پردوں کے چیتھڑے بھی اڑا دیتا ہے اور یہ سب ہم اپنی روزمرہ زندگی میں سڑک پر چلتے کسی ہوٹل میں کھانا کھاتے، کسی سگنل پر رکتے دیکھتے رہتے ہیں۔

لہجہ اور رکھ رکھاؤ بھی پردہ کھول دیتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے سن رکھا ہوگا کہ ایک شادی میں کسی لڑکے کو ایک امیر لڑکی جدید تراش خراش کے کپڑوں میں ملبوس مہنگے اور جاذب نظر میک اپ کے ساتھ ہرنی کی چال چلتی پسند آ جاتی ہے اور وہ دل و جان سے صدقے واری ہوا بیٹھتا ہے مگر کھانا کُھلنے کے وقت جب وہ لڑکی اپنی بہن کو آواز دے کر پوچھتی ہے کہ ’رخسانہ امی نوں پچھ سو بوٹی وڈی پانڑیں اے کہ چھوٹی؟‘ (رخسانہ امی سے پوچھو بوٹی بڑی کھائیں گی یا چھوٹی؟)۔

تو یہ سن کر وہ لڑکا عملی زندگی میں واپس آ جاتا ہے اور شادی کے کھانے پر توجہ دینا شروع کردیتا ہے۔ اگر یہ پردہ ’فاش‘ نہ ہوتا تو اس لڑکے کو اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوسکتا تھا۔

کبھی کبھی انسان کا لہجہ اور رکھ رکھاؤ بھی اس کا پردہ کھول دیتا ہے
کبھی کبھی انسان کا لہجہ اور رکھ رکھاؤ بھی اس کا پردہ کھول دیتا ہے

کچھ پردے خاص آنکھوں پر ڈالنے کے لیے آرڈر پر تیار کیے جاتے ہیں۔ ایسے پردے کوئی بھی خرید سکتا ہے اس میں امیر، مڈل کلاس یا غریب ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جو انسان چاہے اور جب چاہے یہ پردہ آنکھوں پر ڈال سکتا ہے۔ اس طرح دوسروں کا مال کھانے میں آسانی رہتی ہے اور آج کا کام کل پر رکھنے میں بھی سہولت ہوتی ہے۔ دوسروں پر اپنے حصے کا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈال کر انسان مست رہ سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر آخرت میں مکمل کامیابی کا پختہ یقین بھی قائم رہتا ہے۔

کسی بھی ملک کی معیشت پر بھی پردے ڈال کر بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے جو آپ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔

انسان اپنی سہولت کے لیے باطنی پردے تو ڈالتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی حقیقی پردہ بھی کام آ جاتا ہے۔ ہمارے علاقے میں گند کے ایک مناسب ڈھیر کے بالکل ہمسائے میں ایک ہوٹل ہے جہاں اعلیٰ نسل کے نان چنے ملتے ہیں۔ اگرچہ کوڑا کرکٹ کے پہاڑ کے اطراف کی دیواروں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حکم چسپاں ہے کہ یہاں گند ڈالنا منع ہے لیکن آس پاس کے لوگ اپنی آنکھوں اور شعور کے لیے ’تلے کا کام ہوئے‘ خاص پردے استعمال کرتے ہیں اس لیے گند وہیں پھینک جاتے ہیں۔

لوگ وہیں گند ڈالتے ہیں جہاں ’یہاں کچرا پھینکنا منع ہے‘ لکھا ہوتا ہے—تصویر: یوٹیوب
لوگ وہیں گند ڈالتے ہیں جہاں ’یہاں کچرا پھینکنا منع ہے‘ لکھا ہوتا ہے—تصویر: یوٹیوب

ہوٹل والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک بڑا قدم اٹھایا جس سے اہل علاقہ بھی خوش ہوگئے اور گند والا مسئلہ بھی ختم ہوگیا۔ ہوٹل والوں نے ایک بڑا سا تمبو بطور ’پردہ‘ گند کے ڈھیر اور ہوٹل کے درمیان کھڑا کردیا ہے۔ اب لوگ صبح شام گند کے تھیلے وہیں پھینک کر تمبو کے اس طرف ہوٹل سے کھانا لینے آجاتے ہیں۔ دیکھا آپ نے کہ کیسے پورا مسئلہ ہی حل ہوگیا ایک پردے سے۔

بس ایک بار میں بھی پردے سے دھوکا کھا بیٹھا۔ رمضان میں ایک بازار سے کچھ خریداری کررہا تھا کہ خیال آیا کھجوریں لے لوں۔ آس پاس نظر دوڑائی تو ’پاکیزہ‘ پھل فروش کی دکان نظر آئی۔ دیکھا تو دکاندار نے کھجوروں پر کالا پردہ ڈالا ہوا تھا۔ میں نے کہا بھائی پردہ اٹھاؤ اور کھجوروں کی شکل دکھاؤ۔ اس نے پتا نہیں کیوں برا مناتے ہوئے ہوا میں ایک تھپڑ مارا۔ آن کی آن میں مکھیوں کے گروہ نے کجھوروں پر سے کوچ کیا اور ’پاکیزہ‘ فروٹ شاپ میں گم ہوگئیں۔ میں نے معذرت کی کہ ان کی پالتو مکھیوں کو میں نے کالا پردہ کہا اور کوئی اور دکان ڈھونڈنے لگا۔

تبصرے (0) بند ہیں