پاکستان نے ورلڈ کپ 2023ء کا پہلا میچ 81 رنز سے اپنے نام کرلیا۔ یہ ایک ایسا میچ تھا جس کا آغاز دیکھ کر پاکستانی شائقین کو یہی ڈر کھائے جارہا تھا کہ ٹورنامنٹ کا آغاز کہیں شکست سے نہ ہوجائے کیونکہ قومی ٹیم کے اگلے میچز کے مقابلے میں نیدرلینڈز آسان حریف سمجھی جارہی تھی۔

پہلے 38رنز پر تین اور پھر 188 رنز پر چھے وکٹیں گرگئیں تو شائقین کے ذہن میں یہی تھا کہ ایک اور ٹورنامنٹ کا آغاز اپ سیٹ شکست کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ سب کے ذہنوں میں 2019ء ورلڈکپ کے پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف وہ شکست دوڑ رہی تھی جس کے بعد پاکستانی ٹیم اچھا کھیل پیش کرنے کے باوجود سیمی فائنل کی دوڑ سے نکل گئی تھی۔ لیکن پہلے سعود شکیل اور محمد رضوان اور پھر شاداب خان اور محمد نواز کی عمدہ پارٹنرشپس نے پاکستانی ٹیم کے اسکور کو قابلِ دفاع بنا دیا اور باقی کا کام باؤلرز نے بخوبی انجام دیا۔

اس میں تو کوئی شک نہیں رہا کہ سعود شکیل ایک شاندار بلے باز ہیں لیکن اگر کچھ دن پہلے کسی سے کہا جاتا کہ سعود ون ڈے میچ میں 32 گیندوں پر نصف سنچری بنا دیں گے تو شاید وہ ہنس پڑتا لیکن کل سعود نے یہ سچ کر دکھایا۔ دو تین ماہ پہلے کا سوچیں تو سعود شکیل پاکستانی ٹیم انتظامیہ کے ون ڈے پلانز میں دور دور تک نہیں تھے۔

سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے انہیں افغانستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں شامل تو کرلیا گیا لیکن تب بھی یہ یقینی نہیں تھا کہ وہ میچ کھیلیں گے بھی یا نہیں۔ اس سیریز میں سعود کو ایک میچ کھلایا گیا لیکن صرف 9 رنز کے اسکور کے ساتھ پویلین واپسی سعود شکیل کے لیے کچھ اچھی خبر نہیں تھی۔ ساتھ ہی سعود شکیل کا اس وقت تک کا ون ڈے ریکارڈ بھی کچھ ایسا نہیں تھا کہ انہیں ایک اور موقع مل پاتا لیکن اسپنرز کے خلاف سعود شکیل کا اچھا کھیل ٹیم انتظامیہ کے ذہن میں تھا اور شاید اسی وجہ سے سعود شکیل کو طیب طاہر کی جگہ ایشیا کپ کے اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا۔

سعود شکیل اسکواڈ میں تو شامل کرلیے گئے مگر انہیں کھیلنے کا موقع نہ مل سکا۔ شاید پاکستانی ٹیم کی ایشیا کپ میں کارکردگی اچھی ہوتی تو سعود شکیل کو ون ڈے کرکٹ میں طویل عرصے تک مزید کوئی موقع بھی نہ مل پاتا۔ پاکستان کرکٹ میں بےشمار کھلاڑی اسی طرح ایک سیریز میں بغیر کھیلے ہی باہر ہوجاتے ہیں، لیکن اس معاملے میں سعود شکیل خوش قسمت رہے۔ شاید نیٹ پریکٹس میں ان کی کارکردگی اتنی متاثر کُن تھی کہ وہ ورلڈکپ اسکواڈ کا حصہ بھی بن گئے اور پھر پہلے وارم اپ میچ میں ایک جاندار اننگ کھیل کر ٹورنامنٹ کے پہلے میچ کے لیے پلیئنگ الیون کا حصہ بننے میں بھی کامیاب رہے۔

ورلڈکپ کے پہلے میچ میں مخالف ٹیم اور اس کا باؤلنگ اٹیک اتنا مضبوط تو نہیں تھا لیکن ٹیم کے پہلے تین کھلاڑی صرف 38 رنز پر پویلین لوٹ چکے تھے۔ یہی وہ تین کھلاڑی تھے جن کے بڑے اسکورز پر پاکستانی ٹیم پچھلے تین چار سال سے بہت زیادہ انحصار کررہی تھی۔ دیکھا جائے تو پچھلے میچز میں ان تینوں کی ناکامی پاکستانی بیٹنگ لائن کی ناکامی ثابت ہوتی ہے مگر اس بار سعود شکیل نے اس روایت کو بدلنے کا سوچا۔ شروع میں وہ کچھ نروس بھی لگے جبکہ ان کی ہٹ کی ہوئی ایک گیند سلپ فیلڈر کے آگے جاکر گری اور ان کی بچت ہوگئی۔ اس کے بعد سعود شکیل نے اپنے شاندار شاٹس کا سلسلہ شروع کردیا۔ سعود کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ہمیشہ پُرسکون رہنے والے محمد رضوان کا ساتھ ملا۔ محمد رضوان بہت تیز تو نہیں کھیلتے لیکن اسکور بورڈ کو متحرک رکھتے ہیں۔

سعود شکیل خوش قسمت تھے کہ انہیں محمد رضوان کا ساتھ ملا—تصویر: اے ایف پی
سعود شکیل خوش قسمت تھے کہ انہیں محمد رضوان کا ساتھ ملا—تصویر: اے ایف پی

پاکستان کی جانب سے محمد رضوان اور سعود شکیل نے نصف سنچریاں بنائیں جبکہ نیدرلینڈز کی جانب سے وکرم جیت سنگھ نے اچھی کارگردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 52 رنز اسکور کیے لیکن میچ کی بہترین کارکردگی بیس ڈی لیڈے کی جانب سے سامنے آئی۔ پہلے باؤلنگ کرتے ہوئے 4 وکٹیں جبکہ بیٹنگ کے دوران نصف سنچری اسکور کرکے بیس ڈی لیڈے نے نیدرلینڈز کے لیے فتح کے امکانات روشن کیے رکھے لیکن ساتھی کھلاڑی ساتھ چھوڑ گئے اور پھر خود 68 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ بیس ڈی لیڈے کے والد ٹام ٹی لیڈے بھی 1996ء ورلڈکپ میں نیدرلینڈز کی جانب سے کھیل چکے ہیں۔

فتح کے ساتھ ساتھ اس میچ کی اہم بات تمام پاکستانی باؤلرز کی جانب سے وکٹیں تھی۔ حسن علی عمدہ لائن اور لینتھ کے ساتھ باؤلنگ کرتے رہے جبکہ انہوں نے نئی گیند کو سوئنگ بھی کیا۔ امید ہے کہ اگلے میچز میں اگر ردھم بہتر ہوجاتا ہے تو ان کی رفتار میں بھی کچھ بہتری دیکھنے کو ملے گی۔ حسن علی چمپیئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کا اہم حصہ تھے لیکن پچھلے کافی عرصے سے ان کی کارکردگی کچھ خاص نہیں رہی۔ حسن علی کی اسکواڈ میں شمولیت پر انضمام الحق کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا اور بابراعظم کو سوشل میڈیا پر طعنے بھی سننے کو ملے۔ اب یہ حسن علی پر ہے کہ وہ اپنی کارکردگی سے ٹیم میں اپنی شمولیت کو کیسے درست ثابت کرتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل شاہین آفریدی نئی سفید گیند پکڑتے تو پہلے اوور میں وکٹ لینا ان کے لیے ایک عام سی بات تھی۔ لیکن ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف گروپ میچ کے بعد سے شاہین نئی گیند سے کچھ خاص تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ نیدرلینڈز کے خلاف حسن علی گیند کو تھوڑا بہت سوئنگ کررہے تھے لیکن شاہین آفریدی اپنی گیند بازی سے بلےبازوں کو کسی مشکل میں نہ ڈال سکے۔

وکرم جیت سنگھ کافی آسانی سے شاہین آفریدی کی گیندوں پر شاٹس کھیلتے رہے۔ شاہین آفریدی نے بعد میں ایک وکٹ تو حاصل کی لیکن اگلے میچز میں شاہین کی نئی گیند کے ساتھ باؤلنگ پاکستان کے لیے بہت اہم ثابت ہوگی۔ امید ہے کہ شاہین اپنی مکمل ردھم کے ساتھ باؤلنگ کرتے ہوئے پہلے اوورز میں وکٹیں اڑاتے نظر آئیں گے۔

پاکستانی اسپنرز کی کارکردگی متاثرکُن تو نہیں رہی لیکن دونوں اسپنرز نے زیادہ رنز بھی نہیں دیے اور دونوں ہی ایک ایک وکٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ اگرچہ افتخار احمد نے ایک وکٹ تو ضرور حاصل کی لیکن ساتھ ہی ایک آسان کیچ بھی چھوڑ دیا۔ اگلے میچز میں پاکستانی ٹیم کو بہتر فیلڈنگ کارکردگی کی سخت ضرورت رہے گی۔

پاکستانی ٹیم کی پلاننگ اور بابر اعظم کی کپتانی اس میچ میں مناسب رہی۔ مڈل اوورز میں فاسٹ باؤلرز کو واپس لایا گیا تاکہ وکٹیں حاصل کی جا سکیں لیکن ساتھ ہی اگر انہیں کچھ جارحانہ فیلڈ بھی دے دی جاتی تو مزید بہتری آسکتی تھی۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ پاور پلے کے بعد بابراعظم سلپ کو ایک غیر ضروری فیلڈنگ پوزیشن سمجھتے ہیں۔

شاید پاکستانی اوپنرز جوکہ پچھلے ون ڈے ورلڈکپ سے تسلسل سے اسکور بناتے چلے آرہے تھے، نہایت غلط وقت پر ان کی فارم روٹھ چکی ہے۔ فخر زمان کو کھیلتے ہوئے دیکھ کر لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ رواں سال کے دوران تین ون ڈے سنچریاں بنا چکے ہیں اور ون ڈے کرکٹ میں تین بار 180 سے زائد رنز اسکور کرچکے ہیں۔ جبکہ امام الحق کریز پر گزارے وقت کے دوران تو فارم میں لگتے ہیں لیکن پچھلے کئی میچز سے وہ بڑا اسکور بنانے میں ناکام رہے ہیں۔

ورلڈکپ میں پاکستان کے سفر کا آغاز کو جیت سے ہوگیا لیکن اگلے میچز میں کامیابی کے لیے دونوں اوپنرز کا جلد فارم میں واپس آنا نہایت ضروری ہے جبکہ ہمیں اپنے اسپن اٹیک پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں