کرکٹ کی دنیا کے ماہرین ہوں یا عام شائقین، پاکستانی ٹیم کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ یہ ٹیم کبھی بھی کچھ بھی کرسکتی ہے اور شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ یہ ٹیم ہر وہ کام کر جاتی ہے جس کی توقع کم ہی ہوتی ہے۔

ایک ہی میچ کے دوران ہر طرح کا کھیل پیش کرنا بھی پاکستانی ٹیم کا ہی کام ہے۔ کبھی تو باؤلر ایسے پٹ رہے تھے کہ جیسے انہیں باؤلنگ آتی ہی نہ ہو اور جب واپسی کی تو ایسی کہ آخری 21 اوورز میں سری لنکن ٹیم صرف 6 کے رن ریٹ سے ہی اسکور بنا سکی۔ 6 کا رن ریٹ کم نہیں ہوتا لیکن آج کل کی کرکٹ اور آخری اوورز کو ذہن میں رکھا جائے تو ایک اچھی بیٹنگ پچ پر یہ رن ریٹ کچھ خاص نہیں۔

پاکستانی باؤلرز کی اسی عمدہ واپسی کی بدولت پاکستانی ٹیم ون ڈے ورلڈکپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف کامیابی سے حاصل کر پائی۔ اس سے قبل آئرلینڈ کی ٹیم نے 2011ء کے ورلڈکپ میں انگلینڈ کے خلاف 329 رنز کا ہدف حاصل کیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی میچ میں کیون اوبرائن نے تیز ترین ورلڈکپ سنچری کا جو ریکارڈ بنایا تھا وہ چند دن پہلے ہی جنوبی افریقہ کے ایڈن مارکرام نے بہتر بنایا ہے۔

پاکستانی ٹیم پچھلے کچھ عرصے سے وائٹ بال کرکٹ میں نئی گیند کے ساتھ حاصل کی گئی وکٹوں پر بہت زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ اس کی وجوہات میں شاہین آفریدی کی پہلے اسپیل میں شاندار باؤلنگ کے ساتھ ساتھ پاکستانی پیسرز اور اسپنرز کی مڈل اوورز میں خراب باؤلنگ بھی ہے۔ لیکن شاہین آفریدی کی فارم اور ان کا ردھم بھارت کے خلاف ایشیا کپ کے گروپ میچ کے بعد سے ہی روٹھا ہوا ہے۔ رفتار میں کچھ کمی کے ساتھ ساتھ شاہین کی لائن لینتھ بھی بلے بازوں کے لیے زیادہ پریشان کن نہیں لگ رہی اور شاہین کی گیندوں پر تیزی سے اسکور بن رہا ہے۔ کچھ شاہین بھی کل کے میچ میں بدقسمت رہے کہ ان کی گیند پر کوسال مینڈس کا ایک آسان سا کیچ امام الحق نے چھوڑ دیا اور ایک نسبتاً مشکل کیچ خود شاہین پکڑنے میں ناکام رہے۔

کوسال مینڈس کو ایک بڑا اسکور بنانے کا اس سے بہتر موقع اور کب مل سکتا تھا اور مینڈس نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔ حسن علی نے کوسال پریرا کی وکٹ تو جلدی حاصل کرلی لیکن اس کے بعد مینڈس نے پہلے پاتھم نسانکا اور پھر سدیرا سماراوکرما کے ساتھ مل کر پاکستانی باؤلرز کو خراب باؤلنگ کی خوب سزا دی۔

شاداب اور نواز کو اسپن تو مل رہا تھا لیکن دونوں اس پچ پر مناسب رفتار اور مناسب لینتھ نہ ڈھونڈ پائے اور ان دونوں کی ہر غلطی کی سری لنکن بیٹسمین نے انہیں خوب سزا دی۔ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ شاید شاداب خان اور محمد نواز ٹی20 کرکٹ کی بہتات کی وجہ سے ون ڈے کرکٹ میں ایڈجسٹ نہیں کر پارہے۔

پاکستانی ٹیم نے ورلڈکپ 2019ءکے بعد سے کم ہی ون ڈے کرکٹ کھیلی ہے لیکن اس سال پاکستانی ٹیم نے کافی ون ڈے کرکٹ کھیلی ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف دو ون ڈے سیریز، افغانستان کے خلاف ون ڈے سیریز اور پھر ایشیا کپ اور ورلڈکپ کے وارم اپ میچز کے دوران یہی اسپنرز ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔ اتنے میچز میں ایڈجسٹ نہ کر پانا سمجھ سے باہر ہے۔ دونوں پچ پر بہت آگے یا بہت پیچھے گیند پھینک رہے ہیں، جس کی وجہ سے وکٹیں لینا تو دور کی بات رنز روکنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔

اسپنرز کے علاوہ اگلے میچز میں پاکستان کے لیے ایک اہم مسئلہ فیلڈنگ کا بھی بن سکتا ہے۔ سری لنکا کے خلاف دو ڈراپ کیچز کے ساتھ ساتھ کچھ ناقص فیلڈنگ کے باوجود پاکستانی ٹیم میچ جیت گئی کیونکہ سری لنکن فیلڈنگ بھی کچھ خاص بہتر نہیں تھی۔ ساتھ ہی سری لنکن باؤلرز نے وائڈز کے 25 رنز دے کر ایک بڑا ہدف حاصل کرنے میں پاکستانی ٹیم کی مدد کی لیکن شاید باقی ٹیموں کی جانب سے پاکستانی ٹیم کو ایسی مدد نہ مل سکے۔

پاکستانی اننگ کا آغاز ایک بار پھر امام الحق کے ہک شاٹ اور کیچ سے ہوا۔ امام الحق شارٹ بال کو اکثر اچھا کھیل جاتے ہیں لیکن آف اسٹمپ سے کافی دور گیند کو لیگ اسٹمپ کی جانب کھینچنے کے چکر میں ایک بار پھر وکٹ گنوا بیٹھے۔

امام نے اس اننگ میں ون ڈے کرکٹ میں 3 ہزار رنز بنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وہ اس ہدف تک پہنچنے والے دوسرے تیز ترین کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے تین ہزار رنز 67 اننگز میں مکمل کیے۔ ویسٹ انڈیز کے شائے ہوپ اور پاکستانی فخر زمان نے بھی 3 ہزار ون ڈے رنز 67 اننگز میں ہی مکمل کیے تھے۔ بابر اعظم نے 68 جبکہ جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ نے 57 اننگز میں 3 ہزار ون ڈے رنز مکمل کر رکھے ہیں۔ امام نے یہ اعزاز تو حاصل کر لیا لیکن اگلے میچز میں پاکستانی ٹیم کو امام کی جانب سے بڑی اننگز کی بھی ضرورت پڑے گی۔

کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں سے ون ڈے کرکٹ میں بابر اعظم کے ریکارڈز سب سے بہتر ہیں۔ وہ ون ڈے میں ایک ماہ قبل تک بہترین فارم میں بھی تھے اور ابھی تک ون ڈے کرکٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر بھی ہیں۔ بابر اعظم نے ایشیا کپ کے آخری میچز میں خراب کارکردگی کے بعد وارم اپ میچز میں اچھی کارکردگی سے شائقین کرکٹ کے دلوں میں یہ امید جگا دی تھی کہ بابر اس ٹورنامنٹ میں بڑے اسکور بنائیں گے لیکن وہ اس ٹورنامنٹ میں ابھی تک ناکام ہی ہیں۔

نیدرلینڈز کے خلاف آف اسپنر کی عام سی گیند کو شاٹ مڈوکٹ اور آج سری لنکن پیسر مدھوشنکا کی لیگ اسٹمپ سے باہر جاتی گیند کو وکٹ کیپر کے ہاتھوں پہنچا کر بابر اعظم دونوں میچز میں ٹیم کو مشکلات کا شکار کیا اور اپنے فینز کو بھی مایوس ہی کیا۔ اب شائقین کرکٹ کی نظریں بابر اعظم کی بھارت کے خلاف کارکردگی پر ہوں گی۔ بھارت کے خلاف اچھی کارکردگی دو ناکامیوں کو بھلا دے گی لیکن بری کارکردگی پچھلی کئی کامیابیوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔

عبداللہ شفیق ٹیسٹ اسکواڈ میں تھے تو کئی دوروں پر ساتھ رہے مگر کھیلنے کا موقع نہ ملا۔ پھر جیسے ہی موقع ملا تو اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔ ایسا فائدہ اٹھایا کہ ٹیسٹ اوپننگ میں جگہ پکی کرلی۔ سری لنکا کے خلاف ایشیا کپ میچ میں عمدہ کارکردگی کے بعد وارم اپ میچ میں غلط شاٹ کھیل کر وکٹ گنوائی تو نیدرلینڈز کے خلاف کھیلنے کا موقع بھی گنوا دیا۔ اگر فخر زمان اس میچ میں کامیابی حاصل کر جاتے تو شاید عبدااللہ شفیق کو پورے ٹورنامنٹ میں کھیلنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ لیکن عبداللہ شفیق کو موقع ملا اور انہوں نے اس موقع کو دونوں ہاتھوں سے جھپٹ لیا۔

ایک مشکل ہدف کا تعاقب، امام اور بابر کا پویلین لوٹ جانا اور پھر بڑھتا ہوا رن ریٹ، یہ سب سامنے تھا لیکن عبداللہ کا عزم بھی بلند تھا۔ عبداللہ شفیق اور محمد رضوان، دونوں ہی سے شروع میں تیزی سے رنز نہیں بن رہے تھے، مطلوبہ رن ریٹ بڑھتا جا رہا تھا لیکن دونوں کھلاڑی پرسکون تھے۔ یوں جیسے سب کچھ ان کے پلان کے مطابق چل رہا ہو۔

سوشل میڈیا پر ہونے والی باتوں سے یوں لگ رہا تھا کہ میچ پاکستان کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے لیکن دونوں بلے باز نہایت پرسکون تھے۔ پھر جیسے باؤلنگ میں 28 ویں اوور کے بعد پاکستانی باؤلرز نے واپسی کی تھی، بیٹنگ میں 26ویں اوور سے عبداللہ شفیق اور محمد رضوان نے رنز کی رفتار بڑھا دی۔ اس وقت مطلوبہ رن ریٹ ساڑھے 8 کا ہوگیا تھا لیکن اس کے بعد مطلوبہ رن ریٹ ہر گزرتے اوور کے ساتھ کم ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ جب عبداللہ شفیق ایک شاندار سنچری بنانے کے بعد پویلین لوٹے تو بھی رنز کی رفتار کم نہ ہوئی۔

نئی پارٹنرشپ کے آغاز میں سعود شکیل نے سیٹ ہونے میں تھوڑا وقت لیا تو رنز کی رفتار رضوان نے سنبھالے رکھی۔ یہاں تک کہ جب کریمپس کی وجہ سے رضوان کا سیدھا چلنا محال ہو رہا تھا، تب بھی مطلوبہ رن ریٹ پاکستانی ٹیم کے کنٹرول میں تھا۔ رضوان ایک شارٹ گیند کے پیچھے چھلانگ لگانے کے دوران زمین پر گر گئے تھے اور اسی دوران ان کی کمر میں کریمپس پڑگئے۔ اگلے ہی اوور میں ایک شاٹ کھیلتے ہوئے دوبارہ گرنے سے رضوان کی ٹانگوں میں بھی کریمپس پڑ گئے تھے۔ رضوان اس دوران کئی بار زمین پر لیٹے، کئی بار ٹیم فزیو نے انہیں چیک کیا لیکن نہ رضوان میدان سے باہر گئے اور نہ ہی رنز کی رفتار میں کمی آنے دی۔ سعود شکیل نیدرلینڈز کے ساتھ میچ جیسے خوبصورت شاٹس تو نہیں کھیل پائے لیکن رضوان کا بھرپور ساتھ دیا۔

انہی کریمپس کے وقفوں کے درمیان کہیں رضوان نے اپنی شاندار سنچری بھی مکمل کر لی۔ محمد رضوان کی ون ڈے کرکٹ میں یہ تیسری سنچری ہے جو ساڑھے 4 سال کے وقفے کے بعد سامنے آئی۔ دوسری جانب عبداللہ شفیق کی سنچری پاکستان کی جانب سے ورلڈکپ ڈیبیو پر پہلی سنچری تھی۔ سعود کی وکٹ گرنے کے بعد افتخار اور رضوان نے ہدف 49ویں اوور میں حاصل کرلیا۔

پاکستانی ٹیم نے ورلڈکپ کا آغاز عمدگی سے کر لیا ہے، دو نسبتاً آسان میچز جیت کر 4 پوائنٹس حاصل کر لیے ہیں۔ سری لنکا کے خلاف میچ کے بعد پاکستانی ٹیم کے حیدرآباد میں قیام کا وقت بھی ختم ہوا اور اب پاکستانی ٹیم احمدآباد روانہ ہوگی جہاں اس ورلڈکپ کا سب سے بڑا میچ کھیلا جائے گا۔ پاکستان بمقابلہ بھارت میچ چاہے یکطرفہ ہو یا سنسنی خیز، کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ ہی کہلاتا ہے۔

بھارتی ٹیم اس مقابلے میں فیورٹ کے طور پر اترے گی۔ پاکستان نے ون ڈے ورلڈکپ میں کبھی بھارت کو شکست نہیں دی، بھارتی ٹیم اس وقت بہت مضبوط ہے، کھلاڑی بہترین فارم میں ہیں اور ایشیا کپ میں پاکستان کو ایک بڑی شکست بھی دے چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم اپنا بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے 2021ء ٹی20 ورلڈکپ کی طرح کامیابی حاصل کر پائے گی یا باقی تمام ورلڈکپ میچز کی طرح ایک بار پھر انڈین ٹیم فاتح رہے گی؟

تبصرے (0) بند ہیں