بینائی متاثر کرنے والے انجکشن منتقلی کے دوران آلودہ ہوگئے تھے، نگران وزیر صحت پنجاب

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2023
نگران وزیر صحت پنجاب نے کہا کہ جس دن انجکشن کا یہ بیچ منتقل کیا گیا اس دن لاہور میں شدید بارش تھی—فوٹو: ڈان نیوز
نگران وزیر صحت پنجاب نے کہا کہ جس دن انجکشن کا یہ بیچ منتقل کیا گیا اس دن لاہور میں شدید بارش تھی—فوٹو: ڈان نیوز

پنجاب کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا ہے کہ صوبے بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی بینائی کو نقصان پہنچانے کا سبب بننے والے انجیکشنز سپلائی کے دوران خراب ہوگئے تھے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ شدید بارش اور عوامی ٹرانسپورٹ ہی انجکشن کے آلودہ ہونے کا سبب بنے۔

نگران وزیر صحت نے کہا کہ جس دن انجکشن کا یہ بیچ منتقل کیا گیا تھا اس دن لاہور میں شدید بارش تھی اور انجکشن ٹھیک طرح سے پیک یا چیک نہیں کیے گئے تھے۔

خیال رہے کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور، قصور اور جھنگ میں ذیابیطس کے مریضوں کو ریٹینا کو پہنچنے والا نقصان دور کرنے کے لیے آواسٹن کے انجیکشن لگائے گئے تھے تاہم یہ انجیکشن الٹا بدترین انفیکشن کا باعث بن گئے تھے۔

یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آگیا تھا جب قصور میں متعدد مریضوں میں انجکشن کے الٹے اثرات رپورٹ ہوئے۔

ماہرین امراض چشم سمیت سینئر ڈاکٹروں کے مطابق ذیابیطس کے جن مریضوں کو یہ دوا دی گئی ان میں جان لیوا بیماری اینڈو فیتھلمائٹس (آنکھ کے اندرونی حصے کی سوزش) ہو سکتی تھی۔

اس کے بعد حکومت پنجاب نے صوبے بھر میں آنکھوں کی اس دوا پر غیرمعینہ مدت تک پابندی عائد کر دی تھی اور اس انجکشن سے متاثر ہونے والے مریضوں کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے پورٹل کا آغاز بھی کیا تھا اور مریضوں کو مفت علاج کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔

بعدازاں پنجاب میں انجکشن لینے والے مریضوں کی بینائی جانے کے بنیادی عوامل کا تعین کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کی انکوائری کا آغاز کیا گیا، پھر مقامی طور پر انجکشن تیار کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا اور جعل سازی کے الزام میں دو افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ انجکشن کو ڈائیوو بس کے ذریعے منتقل کیا گیا جس کی اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کے تحت اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گاڑی کا فرانزک معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ بس کے نچلے ڈبے اور زمین کے درمیان فاصلہ کم تھا جس کی وجہ سے بارش کا پانی گاڑی کے اس حصے میں داخل ہو گیا جہاں سامان رکھا گیا تھا۔

نگران وزیر نے کہا کہ بارش اور سیوریج گاڑی کے کمپارٹمنٹ میں اندر داخل ہوگیا جس کی وجہ سے ادویات آلودہ ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈرائیوروں سے بھی پوچھ گچھ کی، جنہوں نے بتایا کہ پانی کی وجہ سے انہیں موٹر وے پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اس لیے وہ ملتان روڈ سے گئے تھے جس کی وجہ سے پہنچنے میں کافی وقت لگا۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ حکام نے گزشتہ ریکارڑ بھی حاصل کرلیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادویات بغیر کسی ٹمپریچر کنٹرول کے عوامی سواری میں منتقل کی گئی تھیں۔

دریں اثنا وزیر بہبود آبادی ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا کہ بینائی کے کیسز سامنے آنے کے بعد محکمہ صحت نے فوری طور پر ایکشن لیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہیلتھ کمیشن اور ڈرگ انسپکٹرز کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور آنکھوں کے آپریشن کرنے والے 48 سینٹرز کا دورہ کیا تقریباً 26 ملازمین کو معطل کر دیا گیا اور کئی آپریشن تھیٹرز اور لیبارٹریز کو بھی سیل کر دیا گیا۔

ڈائریکٹر جنرل ڈرگ کنٹرول محمد سہیل نے کہا کہ آنکھوں کی بینائی کے واقعات کو سائنسی طرز پر دیکھنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس متعلق میڈیا میں ہائپ تھی لیکن صرف 66 افراد داخل ہوئے جن میں سے چند ایک اور دیگر کی دونوں آنکھیں متاثر ہوگئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 85 فیصد مریض لاہور سے باہر کے تھے اور جس پیتھوجین کو دریافت کیا گیا وہ سیوڈموناس تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان دونوں امکانات کی وجہ سے محکمے نے نقل و حرکت کا معائنہ کیا۔

محمد سہیل نے کہا کہ اس کے بعد ہمیں پتا چلا کہ پہلے سے بھری سرنجیں بھی عوامی ٹرانسپورٹ کے ذریعے منتقل کی گئیں جس میں ٹمپریچر کنٹرول کا خیال نہیں رکھا گیا۔

محمد سہیل نے کہا کہ بینائی کے واقعات ٹرانسپورٹیشن کا نتیجہ تھے، یہ لازم ہے کہ اس معاملے کو ٹھیک کیا جائے اور کمپنی یا انجکشن کو خراب نہ کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں