دفتر جاتے ہوئے روز ایک کچرے کا پلاٹ راستے میں آتا ہے۔ ایک دن وہ پلاٹ صاف نظر آیا اور ساتھ والی دیوار پر لکھی ایک تحریر نظر سے گزری، لکھا تھا کہ:

’کچرا ڈان منا ہے‘۔

میں نے سوچا شکر ہے ملتان میں بھی انڈر ورلڈ کا اثرورسوخ بڑھا ہے اور اب کچرا پھیلنے کا مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ کچھ دن بعد اس پلاٹ پر کچرا معمول کے مطابق بڑھنے لگا اور صفائی ندارد۔ حیرت ہوئی کہ ’منا بھائی‘ کہاں غائب ہیں اور اپنے کچرے کی سلطنت کو بے یار و مددگار کیوں چھوڑ رکھا ہے۔

  ایک دن دفتر جاتے ہوئے دیوار پر یہ لکھ دیکھا
ایک دن دفتر جاتے ہوئے دیوار پر یہ لکھ دیکھا

ایک بار پھر غور سے ’نوشتہ دیوار‘ پڑھا تو سمجھ آئی کہ یہ ’ کچرا ڈالنا منع ہے’ لکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پس ثابت ہوا کہ جس چیز سے منع کیا جائے وہ تو ہمارے یہاں ہوکر ہی رہتی ہے چنانچہ کچرا وہیں موجود ہے اور ’ڈان‘ لاپتا ہے۔

میں نے حساب لگایا ہے کہ اکثر لوگ جیسے کوئی لفظ سنتے یا سمجھتے ہیں اسے ویسے ہی بولنا اور لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کی زندہ اور ’تاریک‘ مثال مجھے سعودی عرب کے شہر جدہ کے ہوائی اڈے پر نظر آئی۔ پرواز کی آمد کے بعد جہاز کے عملے کو جس سیکیورٹی چیک سے گزرنا ہوتا ہے اس کے اوپر انگریزی میں ’CREW‘ لکھا ہوتا ہے۔ کچھ سال پہلے جدہ آمد پر جب میں سیکیورٹی چیک پر پہنچا تو وہاں ایک نئی تختی لگی ہوئی تھی جس پر ’CROW‘ لکھا ہوا تھا اور دنیا بھر سے آئے ہوئے جہازوں کا عملہ وہیں سے گزر رہا تھا۔ گمان غالب ہے کہ کثرت استعمال کی وجہ سے عربی نابغے کریو کا ’ی‘ کھا کر اسے ’کرو‘ بنا بیٹھے تھے۔

  جدہ میں عملے کے سیکیورٹی چیک پر crew کے بجائے crow لکھا ہے
جدہ میں عملے کے سیکیورٹی چیک پر crew کے بجائے crow لکھا ہے

صورتحال بڑی مضحکہ خیز ہوجاتی تھی جب بچپن میں ملا کر لکھے گئے الفاظ سمجھ نہیں آتے تھے اور سونے پر سہاگے کا تڑکا اس وقت لگتا تھا جب انگریزی الفاظ کو اردو میں پڑھنا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ عید سے پہلے سینما پر لگا ایک فلم کا پوسٹر پڑھنے کا اتفاق ہوا جس پر لکھا تھا:

’عید کیدن سے شاندار افتتاح پورے سرکٹ میں‘۔

سرکٹ تک تو میں بعد میں پہنچا کیونکہ میں ’عید کیدن‘ میں بری طرح پھنس گیا تھا۔ سوچا کہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ تو ٹھیک ہے یہ ’کیدن‘ کون سی عید ہے؟ ابو سے پوچھا تو جواب میں مجھے ایک قہقہہ رسید کرتے ہوئے ’عید کے دن سے‘ کو توڑ کر سمجھایا۔ اب اس میں میرا کیا قصور۔

اسی طرح ’این این بیکرز‘ کے نام سے ملتان میں ایک بیکری تھی۔ کوئی من چلا یا من جلا بیکری کے بورڈ سے شروع کا ایک الف اتار کر لے گیا۔ اب وہ بیکری ’ین ا ین‘ بیکرز (بہ وزن ’دھنادھن‘) بن چکی تھی اور اسکول میں میرے دوست نے یہی نام مجھے بتایا کیونکہ اس کا گھر اس بیکری سے قریب تھا۔ جب میں سائیکل پر پہلی مرتبہ اس کے گھر گیا تو ’ین ا ین‘ بیکری ڈھونڈھتے ہوئے پہنچا جو مجھے راستے میں مل بھی گئی۔

ماشااللّٰہ سے میرا بیٹا بھی بالکل میرے جیسا نکلا ہے۔ ایک دعوت میں ’پائے‘ کا شور سن کر میرے برابر آ بیٹھا کہ بابا مجھے بھی پائے دیں۔ میں نے سالن کا ڈونگا اس کے آگے بڑھایا تو کہنے لگا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا بیٹا پائے ہیں، کھاؤ۔ کھسیانا ہوکر اٹھ کھڑا ہوا اور واپس جاتے ہوئے کہنے لگا ’وہ میں سمجھا تھا کہ ایپل پائے ہے‘۔

میرے بہت سے علاقائی زبان بولنے والے دوست جب اردو یا انگریزی میں بات کرتے ہیں تو بعض اوقات الفاظ سمجھنے میں مشکل ہوجاتی ہے۔ ایک دوست ملنے آیا تو ساتھ اس کا کزن بھی تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ لندن کے لیے سفر کرنا تھا تو کچھ معلومات لینے آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ’میں پہلی مرتبہ جارہا ہوں، آپ گئے ہیں؟‘

لیکن ’گئے‘ میں ’ء‘ لگانا بھول گیا۔

میں نے دوست سے احتجاج کیا کہ جنسی ترجیحات جانچنے سے گریز کیا جائے نتیجتاً ’ء‘ لگا کر تلافی کی گئی۔ پھر موضوع بدلنے کو کہنے لگے:

آپ کی کوسٹ (کاسٹ/ ذات) کیا ہے؟

ابھی سوال سمجھنے ہی لگا تھا کہ انہوں نے وضاحت کی کہ ’بھئی جیسے ہم پیچھے سے خان ہیں اور آپ‘؟ میں نے دوست کی طرف دیکھا تو وہ پہلے ہی شرمندگی سے پراٹھے جیسا منہ نکالے آنکھوں ہی آنکھوں میں معافی کا طلب گار ہوکر میری جانب دیکھ رہا تھا۔ میں نے جواب دینے کے بجائے آگا پیچھا سنبھالا اور چائے بنانے کے لیے کچن کی راہ لی۔

تبصرے (0) بند ہیں