کراچی: صدیوں کی کتھا! (چوتھی قسط)

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


ہم نے کوشش کی ہے کہ گزرے وقت کے دریا کو کوزے میں بند کرسکیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی علاقے کے حوالے سے اس وقت سے بات کرنا جب جغرافیائی طور پر وہ بننے کی اُدھیڑ بن سے گزر رہا تھا اور پھر بالترتیب اس کے گزرے ادوار پر لکھنا جس پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق کچھ زیادہ نہ ہوئی ہو انتہائی مُشکل کام ہے۔

مگر ہماری مشکل اس وقت آسان ہوجاتی ہے جب دنیا کے آرکیالوجسٹ اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ دنیا کے گرم یا ٹھنڈے خطے جو انسان کی جنم بھومی رہے یا ابتدائی ارتقائی عمل سے گزرے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں وہاں وہ کم و بیش ایک ہی طرح کے ارتقائی عمل سے گزرے ہیں۔ یہ ارتقائی سفر کہیں سُست، کہیں تیز تو کہیں مناسب رفتار سے آگے بڑھا اور اس تیز، سست اور معمول کی رفتار کے اسباب وہاں کے معروضی حالات تھے کیونکہ جب انسان ایشیا اور یورپ میں ارتقائی منازل طے کررہا تھا تو مشرقی افریقا میں بھی ارتقائی عمل جاری تھا۔

نوح ہراری تحریر کرتے ہیں کہ ’انسانیت کا گہوارہ کئی نئی اسپیشیز کی پرورش کرتا رہا جن میں سے ایک ہم بھی تھے، ہوموسیپیین یعنی ذہین آدمی۔ مطلب یہ کتنا زبردست ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو ہی یہ اعزاز دے دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تقریباً 20 لاکھ سال پہلے سے لےکر 10 ہزار برس قبل تک یہ زمین مختلف انسانی نوع کی بیک وقت میزبان تھی۔ 10 لاکھ سال پہلے زمین پر انسانوں کی کم از کم 6 نسلیں موجود تھیں۔ مگر اب ہم اکیلے رہ گئے ہیں جوکہ ایک حیرت انگیز بات ہے‘۔

فی الوقت ہم انسانی ارتقائی سفر سے متعلق نوح ہراری کی بات کو یہیں تک ہی بیان کرتے ہیں کیونکہ آج کا ہمارا سفر فقط اتنا ہی بتانے کی اجازت دیتا ہے۔ جیسے جیسے انسانی دماغ ترقی کرتا جائے گا اور جنگلوں اور غاروں سے بستیوں کی زندگی میں قدم رکھے گا وہاں سے ایک تہذیب کا باقاعدہ آغاز ہوگا اور یوں ہم انسان کی ترقی کی چھوڑی ہوئی کتھا کو دوبارہ یہیں سے منسلک کریں گے۔

   قدیم دور کے انسانوں کے ہتھیار
قدیم دور کے انسانوں کے ہتھیار

گزشتہ تحریر میں ہم نے محترم ڈاکٹر عبدالرؤف خان کی تحقیق پر مختصراً بات کی تھی جبکہ آج کے اس سفر میں ہم کوشش کریں گے کہ پائلو بیگی کی تحقیقی رپورٹس کا ذکر کرسکیں جو اس نے ڈاکٹر خان کی تحقیق کی بنیاد پر تحریر کی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کوشش کریں گے آج کے اس سفر میں محترم ذوالفقار کلہوڑو صاحب سے یہاں کے اطراف میں پھیلے ہوئے میگالتھک (فنِ تعمیر کا پتھر کا دور) زمانے کے آثار پر بھی بات کرسکیں کیونکہ اس کے بعد ہمیں سندھو گھاٹی کے زمانے کی اُن بستیوں میں جانا ہے جو یہاں اس سمندر کنارے موجود تھیں۔

یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سندھو گھاٹی میں جہاں جہاں ایسی بستیاں اپنے اپنے معروضی حالت میں پنپ رہی تھیں، درحقیقت انجانے میں وہ آنے والے دنوں کے لیے ایک تہذیب کی تخلیق کررہی تھیں جس کو آج کل ہم سندھو گھاٹی کی تہذیب یا انڈس ویلی سویلائزیشن کا نام دیتے ہیں۔ اس تہذیب کے بننے میں اس کھیرتھر پہاڑی سلسلے اور سمندر کے اس حصے کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ ابتدائی انسانی بستیوں نے یہیں پر شاندار مستقبل کی بنیاد رکھی تھی۔

میرے سامنے اطالوی محقق پائلو بیگی کی بہت سی تحقیقی رپورٹس موجود ہیں جو اُس نے سندھ کے قدیم مقامات کو کھوجنے اور سائنسی بنیادوں پر انتہائی باریک بینی سے تحقیق کرکے تحریر کی ہیں۔ کراچی کے حوالے سے اس کی تحقیق کو اس تحریر میں شامل کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہمارے سامنے کراچی کی قدیم سے جدید تک ایک مکمل تصویر بن سکے۔ ہم جب کراچی کے متعلق بات کریں تو تالپوروں یا برٹش راج سے کیوں کریں؟ ہمیں تو بات اُن ماہ و سال سے شروع کرنی چاہیے جس کے متعلق ابھی تک کام ہوا ہے یا تحقیق ہوئی ہے۔ اگرچہ ان رپورٹس میں سائنسی زبان کا استعمال زیادہ ہے مگر یہ اہم ہے کہ ہم اُن کو سمجھیں۔

پائلو بیگی کی پہلی رپورٹ یہاں کے ’میسولیتھک زمانے‘ (یعنی 10 ہزار سے 8 ہزار قبلِ مسیح) کے بارے میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’سندھ میں میسولیتھک آبادکاری کے موضوع پر تحقیق سب سے پہلے مرحوم پروفیسر اے آر خان نے 1970ء کی دہائی میں کی تھی۔ اس نے یہ تحقیق کراچی کے اردگرد 40 کلومیٹرز تک فعال بہاؤ کے درمیان ملیر کے مغرب میں اور حب ندیوں کے مشرق میں کی تھی۔ اس کے جیو آرکیالوجیکل پروجیکٹ آثار قدیمہ کی متاثر کن تعداد کی دریافت کا باعث بنے جن کا تعلق مختلف ادوار سے منسوب ہے جیسے اکیولین (Acheulian) پیلیولتھک (ابتدائی پیلیولتھک دور کے Acheulian مرحلے کے دوران جو 15 لاکھ سے 17 لاکھ سال پہلے شروع ہوا اور 2 لاکھ سے 2 لاکھ 50 ہزار سال پہلے تک جاری رہا) سے لےکر کلی کانسی (Kulli Bronze Ages) کے دور تک۔

    اکیولن دور میں ہاتھ سے بنائے ہوئے پتھر کی کلہاڑیاں
اکیولن دور میں ہاتھ سے بنائے ہوئے پتھر کی کلہاڑیاں

بدقسمتی سے پروفیسر صاحب کے مجموعی کام کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ شائع ہوا ہے۔ پروفیسر اے آر خان کے سروے سے پہلے سندھ میں میسولیتھک دور کے بارے میں تقریباً کسی کو کُچھ معلوم نہیں تھا۔

کمانڈر کے آر یو ٹوڈ نے 1930ء کی دہائی میں زیریں سندھ کی پہلی میسولیتھک سائٹ دریافت کی۔ کراچی کنٹری گالف کلب کے اندر دریائے لیاری کے کنارے Trapezoidal Microliths (چکمک اور چیرٹ کے مخصوص پتھروں کو تراش کر ایک مخصوص شکل دے کر شکار اور دوسری چیزیں کاٹنے کے لیے ہتھیار کے طور پر بنایا گیا) پتھروں کی جو ایک بڑی مقدار ملی اس کے ملنے کا مطلب یہ تھا کہ یہاں ابتدائی انسان اپنے ماحول اور وسائل کو بروئےکار لارہا تھا۔ یعنی اُس ارتقائی انسان کی وہاں چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں اور وہ وسائل کے حوالے سے اُن کے ارتقائی سفر میں مدد کررہی تھیں۔ مگر بڑھتے ہوئے شہر نے کمانڈر ٹوڈ کی اس اہم کھدائی یعنی اس سائٹ کو تباہ و برباد کردیا۔

   سندھ کی اپر پیلیولتھک سائٹس
سندھ کی اپر پیلیولتھک سائٹس

یہ سائٹ اہم اس لیے تھی کیونکہ وہاں سے جو کچھ ملا تھا اُس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آج سے تقریباً 11 ہزار 700 برس پہلے مختلف بہاؤ سے آنے والے میٹھے پانی اور سمندر کے کنارے کی وجہ سے ہولوسین زمانے کے لوگ یہاں آباد تھے اور دُور دُور تک ان کی چھوٹی چھوٹی بستیاں بسی ہوئی تھیں۔ یہ دریافت اُس زمانے کی ایک دھندلی تصویر ہمارے ذہنوں میں بناتی ہیں کہ ہولوسین جو شکار جمع کرنے والے تھے، شمالی بحیرہ عرب کے ساحل کی وجہ سے آبی گزرگاہ کے کنارے آباد تھے۔

پروفیسر اے آر خان کی دریافتوں نے بہت بعد میں دریاؤں اور ندیوں کے کنارے اور میٹھے پانی کے چشموں کے قریب یہاں پیلیولتھک اور میسولیتھک مقامات کی موجودگی کی تصدیق کی۔ انہوں نے مول، کھدیجی، ملیر اور دیگر دریائی وادیوں، مولری پہاڑیوں کے ساتھ، ریڑھی، کاڈیرو فورٹ کے کنارے کے ساتھ ان اہم قدیم مقامات کو دریافت کیا۔ یہاں ریڑھی اور کاڈیرو فورٹ دونوں ایسی سائٹس ہیں جو مولری پہاڑیوں سے جنوب مشرق میں تقریباً 15 کلومیٹرز دور ہیں اور یہ دونوں سمندر کے نزدیک دریائے سندھ کے بہاؤ پر تھیں۔

  میسولتھک اور پیلیولتھک زمانے میں لیاری، مولری، ریڑھی، کاڈیرو کے مقامات
میسولتھک اور پیلیولتھک زمانے میں لیاری، مولری، ریڑھی، کاڈیرو کے مقامات

ہمارے ساتھ ڈاکٹر سید محمد اشفاق صاحب ہیں جو ایک زمانے میں محکمہ آثارِ قدیمہ و عجائب گھر کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ ان صاحب نے سمندری کناروں اور یہاں کے جزیروں کا انتہائی محنت اور گہرائی سے مطالعہ کیا تھا تو اگر ہم اُن جزیروں کے متعلق محمد اشفاق صاحب سے سن لیں تو یہ زیادہ مناسب رہے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں قدیم ڈیلٹا علاقے کے دھنسنے کی نمایاں علامتیں اس علاقے میں واقع ان بندرگاہوں سے ملتی ہیں جو غرق آب ہوچکی ہیں اور جن کی عمارتیں گہری دلدل میں گھری ہوئی اینٹوں کے ڈھیروں کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ ان میں کیٹی بندر، جونا بندر، لہاری (لاڑی) بندر، رتوکوٹ وغیرہ کے آثار ثبوت ہیں کہ گھارو اور کورنگی کی آبی گزرگاہیں جو کسی زمانے میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا علاقے کی مخرج تھیں، اب موجودہ پورٹ قاسم کے مغرب میں ایک دوسرے میں ضم ہوگئی ہیں۔ ان دونوں مخارج کے درمیان واقع خشک پٹی یا کھپریاں والا جزیرہ بڑی حد تک زیرِ آب آچکا ہے اور اس جگہ اُگنے والی نباتات تمر سمندری جذر (Ebb-tide) کے وقت لہلہاتے کھیتوں کا منظر پیش کرتی ہے۔ اس خشک پٹی کا جنوبی حصہ جزیرہ بنڈال (بھنڈاڑ) کہلاتا ہے جو سفید ریت کے ٹیلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔

  بھنڈاڑ جزیرہ—تصویر: لکھاری
بھنڈاڑ جزیرہ—تصویر: لکھاری

تقریباً ایک صدی پہلے اس جزیرے کے گرد ناریل کے درختوں کے جھنڈ ہوا کرتے تھے مگر اس صدی کی ابتدا میں آنے والے زلزلے کی وجہ سے اس جزیرے کی سطح کئی فٹ نیچے چلی گئی جس کی وجہ سے یہاں ناریل کے درختوں سے بھرا منظرنامہ اب ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

شہرِ کراچی کے قریب ترین تاریخی آثار میں ایک ریڑھی میان سے کچھ کلومیٹر جنوب میں مُچک (Muchak Island) ہے جس پر رتو کوٹ کی پختہ اینٹوں کا ڈھیر ہے جو دور سے سمندر میں ایک پہاڑی کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ رتو کوٹ کا اصل نام تو معلوم نہیں البتہ سُرخ اینٹوں کی مناسبت سے سنسکرت زبان کے ان دو الفاظ کے معنیٰ لال قلعہ ہے۔ ان آثار کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب دور حکومت میں یہ ایک اہم تجارتی مرکز اور گھارو کی سمندری گزرگاہ پر حفاظتی چھاؤنی ہوا کرتی تھی۔

   ریڑھی کے قریب قدیم قلعے کے آثار
ریڑھی کے قریب قدیم قلعے کے آثار

برٹش راج میں جب ارضیاتی سروے شروع ہوا تو سندھ کے ساحل پر مستقل علامتیں نہ ہونے کی وجہ سے رتو کوٹ کے آثار کو تثلیثی نقطہ قرار دیا گیا اور اس طرح سروے میں یہ مددگار ثابت ہوا۔ پورٹ قاسم کی تعمیر سے پہلے جو سروے ہوا تھا اُس میں اسے ’کاڈیرو فورٹ‘ کے نام سے درج کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جام جونو (1352ء سے 1367ء) کے دور میں یہاں قلعہ تعمیر ہوا۔ قلعے کے کھنڈرات سے ماہی گیروں کو بنو اُمیہ اور عباسی دور کے سونے اور تانبے کے سکے اور دوسری نواردات بھی ملے۔

  رتو کوٹ کے آثار—تصویر: لکھاری
رتو کوٹ کے آثار—تصویر: لکھاری

اسی طرح کلفٹن کی پتھریلی پٹی، جزیرہ منوڑہ کے جنوب مغربی کنارے پر سنگ متفرقات (Conglomerate) کی دبیز تہ اور راس معاری (راس خشکی کا وہ قطعہ ہے جو دُور تک پانی میں چلا گیا ہو) سے شمال کی طرف گڈانی اور سونمیانی تک کا ساحلی علاقہ ابھرے ہوئے سمندری میدانوں اور لہروں سے تراشیدہ گھاٹوں (Wave cut Platforms) کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اگر خلیج سونمیانی کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں قدرے گہرا سمندر تھا لیکن زمین کے اوپر ابھرنے سے یہاں ایک خلیج برائے نام رہ گئی ہے جوکہ غالباً کچھ صدیوں کے بعد ایک ہموار میدان کی حیثیت اختیار کر لے گی۔

ڈاکٹر سید محمد اشفاق صاحب کی مختصر وضاحت سے یہاں کے اطراف میں پھیلے ہوئے کچھ قدیم جزیروں اور مقامات کا آپ کو پتا چل گیا ہوگا۔ چونکہ پائلو بیگی کی اہم تحقیق کا اگلا حصہ ان سے منسلک ہے تو اب آپ کو سمجھنے میں یقیناً آسان ہوگی۔

  تمر کے دیوہیکل درخت کی ایک قسم
تمر کے دیوہیکل درخت کی ایک قسم

وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ’ڈاکٹر خان کے اس سروے نے ایک حوالے سے حیرت انگیز مقامات کو دریافت کیا اور مولری پہاڑیوں میں سے جو بستیوں کا ایک جمگھٹا ملا جہاں سے نپے تُلے سائز کے انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے سنگی چاقو ملے جو ارتقائی انسان نے پتھروں کو توڑ کر الگ الگ کاموں کے لیے بنائے تھے اور وقت کے ساتھ ان کے تراشنے کے انداز میں بھی ترقی دیکھی گئی۔ سندھ میں میسولیتھک کی زرخیز وادی یہیں سے دریافت ہوئی تھیں۔ یہ اُن انسانوں کی بستیاں تھیں جنہوں نے شاید ترقی پا کر موئن جو دڑو اور ہڑاپا جیسے شہروں کی بنیادیں رکھیں۔

’ہمیں ایسی ہی دوسری بستی روہڑی کے قریب ملی ہے۔ مگر زیریں سندھ میں یہ سب سے بڑی بستی تھی۔ اور ساتھ میں ایسی نواردات بھی ملیں جنہوں نے ہمارے تصور میں ایک شاندار لینڈاسکیپ پینٹ کردیا۔ یہاں سے ایک Terebralia palustris mangrove shell ملا جس کا کاربن ٹیسٹ کرنے سے پتا چلا کہ یہ کم سے کم 7001 سے 8000 قبلِ حاضر قدیم ہے۔ یہ گھونگا سمندری پانی میں اور Giant Mangrove میں رہتا اور پنپتا تھا۔ مطلب تمر کے درختوں کی وہ نسل جو دیو ہیکل کہلاتی ہے۔ ایسی قدامت رکھنے والے گھونگے مولری پہاڑیوں سے 15 کلومیٹر جنوب مشرق میں ریڑھی کی بستی سے بھی ملے ہیں جو کاڈیرو کے قدیم بہاؤ کے کنارے پر ہے۔

  یہ گھونگا  سمندری پانی اور بڑے تمر کے درختوں میں رہتا اور پنپتا تھا
یہ گھونگا سمندری پانی اور بڑے تمر کے درختوں میں رہتا اور پنپتا تھا

آپ اپنے تصور کی آنکھ سے اُن دنوں کے لینڈ اسکیپ کو بُننے کی کوشش کریں تو آپ کو منگھو پیر کی اس پہاڑی سے جنوب کی طرف یعنی ملیر اور لیاری بہاؤ کے بیچ میں بے تحاشا لمبے تمر کے جنگلات نظر آئیں گے ساتھ ہی دوسرے درختوں اور تمر کی دوسری نسلوں کے بھی گھنے جنگل نظر آئیں گے۔ بالکل ایسے جیسے اُن زمانوں کے بنے تصوراتی اسکیچ آپ کو دکھائے جاتے ہیں۔ ہم اگر فقط سندھ کی بات کریں تو فی الوقت اُس زمانے کے جتنی بھی قدیم بستیاں ملی ہیں اُن میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا یہی سمندری کنارے والا علاقہ ہے جس کو آپ اس پہاڑی سے دیکھ رہے ہیں۔

  Terebralia palustris  کے خول
Terebralia palustris کے خول

ڈاکٹر خان اور پائلو بیگی کی تحقیقات کے مطابق، تھدھو، بازار، مول، لنگھیجی، کھڈیجی، لیاری اور دوسری ندیوں کے بہاؤ کے کناروں پر ابتدائی انسانی آبادیوں کی ایک دنیا بستی ہے۔ مولری پہاڑیوں اور ریڑھی سے پیلیولتھک (25 لاکھ سے 10 ہزار قبلِ مسیح) کے جو نوادرات ملے ہیں اس کی وجہ سے زیریں سندھ میں یہ مقام انتہائی اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔ ان نوادرات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ بحرِ اوقیانوس کے آغاز سے پہلے ابتدائی ہولوسین شکاریوں کے گروہ اس خطے میں آباد ہوگئے تھے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بحیرہ عرب کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ یہاں پہنچے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ مقامات سے ہولوسین شکاریوں کے سمندری گولے بھی ملے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرنے میں مدد دیتے ہیں کہ ہولوسین شکاریوں کے گروہوں نے اس سمندری کنارے والے علاقے کو بار بار آباد کیا۔

یہ مناسب رہے گا کہ آج ہم اس اہم سفر کو اِسی مقام پر روکیں کیونکہ اگر ہم نے ’میگالتھک دور‘ پر کلہوڑو صاحب سے بات کرنی شروع کی تو نہ اس اہم موضوع کی مناسب طریقے سے ابتدا کی جا سکے گی اور اختتام تو خیر ممکن ہی نہیں ہے۔ تو ہم اپنے اس طویل اور تاریخی سفر میں جلد ہی ملتے ہیں منگھوپیر کی انہی پہاڑیوں پر کیونکہ اب موسم بدلنے لگا ہے۔ دن بچپن کی عمر کی طرح چھوٹے ہونے لگے ہیں اور شمال سے جاڑوں کی ٹھنڈی ہوائیں آنے میں زیادہ دن نہیں رہے۔

حوالہ جات

  • بندہ بشر۔ نوح ہراری۔ سٹی بک پوائنٹ، 2019۔ کراچی
  • وادی لیاری۔ مدیر: حمید ناظر۔ 1992۔ کراچی
  • The Mesolithic Settlement of Sindh. (Report) Paolo Biagi
  • The Palaeolithic Settlement of Sindh. (Report) Paolo Biagi.