’تحریک لبیک پاکستان دہشتگردی میں ملوث نہیں‘، الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ میں جواب

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2023
الیکشن کمیشن کے مطابق ٹی ایل پی کے خلاف ممنوع فنڈ اوردہشتگردی میں ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے — فائل فوٹو: اے ایف پی
الیکشن کمیشن کے مطابق ٹی ایل پی کے خلاف ممنوع فنڈ اوردہشتگردی میں ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ میں یکم نومبر کو 2017 کے فیض آباد دھرنا کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوگی، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ’دہشت گردی یا ریاست مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹی ایل پی نے ممنوع فنڈنگ بھی حاصل نہیں کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت 3 رکنی بینچ نظر ثانی کی 9 درخواستوں پر سماعت کرے گا، درخواست گزاروں نے اس بات پر آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ اپنی فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست واپس لے لیں گے۔

26 ستمبر کو سپریم کورٹ نے 20 دن جاری رہنے والے دھرنے کے حوالے سے کسی بھی فرد کے نئے انکشافات کو تحریری طور پر جمع کروانے کا حکم دیا تھا، جس کے نتیجے میں جڑواں شہر کی سرگرمیاں معطل ہوگئی تھی۔

سپریم کورٹ میں 3 صفحات پر مشتمل جواب میں ای سی پی نے بتایا کہ اس نے وزارت داخلہ، انسداد دہشت گردی کے ادارے(نیکٹا) اور دیگر ایجنسیوں کو نوٹس جاری کیے، جس میں ان سے ٹی ایل پی کی کسی بھی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کروانے کا کہا گیا تھا۔

ان رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچی کہ تحریک لیبک پاکستان دہشت گردی کے کسی واقعے میں ملوث نہیں ہے اور نہ ہی اسے کالعدم قرار دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ’اس لیے کمیشن کا یہ ماننا ہے کہ چونکہ ٹی ایل پی کسی بھی ریاست مخالف سرگرمی یا دہشت گردی میں ملوث نہیں اسی لیے کمیشن نے اپنی انکوائری کو ختم کردیا۔‘

6 فروری 2019 کے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے روشنی ڈالی تھی کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 211 اور الیکشن رول 2017 کے رولز 161 (2) کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کو کمیشن کے سامنے ان چندہ دینے والوں کی فہرست پیش کرنی ہوتی ہے، جنہوں نے انتخابی مہم چلانے کے لیے ان کو ایک لاکھ یا اس سے زائد رقم دی۔

فیصلے میں اس بات پر اظہار افسوس کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن پُر اعتماد تھی کہ ٹی ایل پی اپنے فنڈ اور انتخابی مہم میں خرچ کی جانے والی رقم کا حساب نہیں دے سکی مگر حیران کن طور پر کمیشن نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا کیونکہ کمیشن کے مطابق قانون ’کاسمیٹک‘ تھا۔

فنڈنگ کا ذریعہ

فنڈ کے ذرائع کی اسکروٹنی کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے ٹی ایل پی کے سربراہ کو نوٹس جاری کیا۔

جماعت کو سننے کے بعد کمیشن نے یہ فیصلہ کیا کہ تحریک لبیک پاکستان کے کھاتوں کی اسٹیٹمنٹ، اثاثہ جات اور واجبات کو اسکروٹنی کمیٹی کے حوالے کردیا جائے، جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ممنوع فندنگ کے ذریعے 15 لاکھ 86 ہزار 324 روپے کی معمولی رقم ملی، جو ٹی ایل پی جیسی جماعت کے لیے یہ رقم انتہائی کم ہے۔

ای سی پی کے مطابق ’اگر جماعت کو شبہ ہوتا تو وہ باآسانی اس رقم کو چھپا سکتی تھی‘، اس کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹی ایل پی چاہتی تو وہ اس رقم کو کھاتے میں نہیں جمع کرواتی مگر پارٹی نے ایسا نہیں کیا اور اس کے برعکس کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اتنی معمولی رقم کو ممنوع فنڈنگ کے ذریعے وصول ہونے کے طور پر لیا جاسکے‘۔

کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ ساتھ ہی 11 نومبر 2018 کو جاری ہونے والا نوٹس بھی واپس لے لیا گیا کیونکہ پارٹی کا حساب کتاب صحیح تھا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اس نے عدالتی احکام کی پوری طرح سے تعمیل کی، اس کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن اپنے فرائض اور کام سے واقف ہے، اسی وجہ سے اس نے ای سی پی کے ایک نمائندے کے نقطہ نظر کو سماعت کے دوران قبول نہیں کیا، جس میں انتخاب سے متعلق قانون کو سطحی کہا گیا تھا۔

اسی طرح پیمرا کی جانب سے عدالت میں پیش تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا کہ تمام پروگرامز کے حوالے سے ٹی وی چینلز کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ الیکٹرانک میڈیا (پروگرام اور اشتہارات) ضابطہ اخلاق کی شق 8 کے مطابق فیض آباد دھرنے کی کوریج سے متعلق ہدایات کی تعمیل کرے۔

رپورٹ میں اس بات کی بھی وضاحت دی گئی ہے کہ ٹی وی چینلز کی ہدایات نہ ماننے اور سیکیورٹی آپریشن کی لائیو کوریج کرنے کے باعث سیکیورٹی اہلکاروں کی جانیں خطرے میں پڑ سکتی تھیں، ریگولیٹری ادارے نے اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ان تمام نیوز چینلز، متعلقہ پروگرامز اور ٹی وی چینلز کو فوری طور پر بند کردیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں