اداکارہ ہانیہ عامر نے مردوں کی ذہنی صحت سے متعلق اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کل دماغی صحت پر بات کرنا غلط نہیں سمجھا جاتا لیکن بدقسمتی سے مردوں کو بچپن سے سخت مزاج ہونے اور اپنے جذبات کو چھپانا سکھایا جاتا ہے۔

اکثر اوقات مردوں سے توقعات اور سماج میں ان کا روایتی کردار ایسا ہے جس کے باعث مرد اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں کسی سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔

پاکستان میں روایتی طور پر مردوں کو عام طور پر کمانے کے لیے گھر سے باہر بھیجا جاتا ہے اور مضبوط، بااثر ہونے کی نظر ہی سے دیکھا جاتا ہے، اور ساتھ ہی بچپن سے انہیں سکھایا جاتا ہے کہ کسی کے سامنے رونا نہیں ہے اور جذبات کا اظہار نہیں کرنا، جس کے نتیجے میں مستقبل میں اکثر اوقات مرد ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔

اسی حوالے سے اداکارہ ہانیہ عامر نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مردوں کو بھی جذبات اور احساسات ظاہر کرنے کا پورا حق ہے لیکن بدقسمتی سے انہیں ایسا نہیں سکھایا جاتا۔

ہانیہ عامر نے انسٹاگرام پر اداکار گوہر رشید اور علی رحمٰن خان کے ساتھ تصویر شئیر کرتے ہوئے مردوں کی ذہنی صحت کی اہمیت سے متعلق تفصیلی بات کی۔

انہوں نے کیپشن میں لکھا کہ ’آج کل ذہنی صحت پر بات کرنا غلط نہیں سمجھا جاتا لیکن بدقسمتی سے مردوں کو بچپن سے سخت مزاج ہونے اور اپنے جذبات کو چھپانا سکھایا جاتا ہے۔‘

ہانیہ عامر نے کہا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کی ملاقات کچھ بہترین لوگوں سے ہوئی ہے لیکن انہیں دکھ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے اپنی ذہنی صحت کے بارے میں بات نہیں کرسکتے، کئی مرد اپنے جذبات کو کھل کر بیان کرنے میں آسانی محسوس نہیں کرتے۔

اداکارہ نے کہا کہ یہ ’مردوں کی صحت‘ سے متعلق آگاہی دینا کا مہینہ ہے اور میں ان مردوں کے لیے فکر مند ہوں جنہیں ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے، جو دوسروں سے مدد مانگنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، جن کے ذہنوں میں منفی خیالات ہیں اور جو تھراپی سے گزر رہے ہیں۔

انہوں نے ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ان تمام مردوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’میں معذرت خواہ ہوں کہ معاشرے میں آپ لوگوں کو جذبات چھپانا سکھایا جاتا ہے، ہمیں اس پر بات اور آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‘

یاد رہے کہ نومبر مردوں کی صحت سے متعلق آگاہی کا مہینہ ہے جس کا مقصد ذہنی صحت کے مختلف مسائل کو اجاگر کرنے اور بیداری پیدا کرنا ہے، جو بنیادی طور پر مردوں کو متاثر کرتے ہیں۔

مردوں کے صحت سے متعلق آگاہی کے مہینے کے دوران مختلف تنظیمیں مہم اور تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں جن میں مردوں کی ذہنی صحت کے علاوہ کینسر جیسی خطرناک بیماری کے حوالے سے بھی گفتگو کی جاتی ہے۔

انڈیپنڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ 2021 میں عالمی سطح پر 20 فیصد افراد ڈپریشن کا شکار رہے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 34 فیصد ہے، پاکستان میں 22 کروڑ عوام کے لیے محض 500 ماہر نفسیات ہیں جس کے باعث ذہنی امراض کا علاج یا تو وقت پر نہیں ہو پاتا یا پھر ہوتا ہی نہیں ہے اور 90 فیصد ذہنی امراض میں افراد کا علاج ہوتا ہی نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں