تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے، راجا پرویز اشرف

05 نومبر 2023
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف ڈان نیوز کے پروگرام دوسرا رخ کو انٹرویو دیتے ہوئے— فوٹو: ڈان نیوز
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف ڈان نیوز کے پروگرام دوسرا رخ کو انٹرویو دیتے ہوئے— فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی کے مسائل کو اٹھانے کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر سکا۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ماضی کے مسائل کو بار بار اٹھانے پر افسوس کا اظہار کیا۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کہا کہ جب یہ مسائل پیدا ہو رہے ہوتے ہیں تو اس وقت سب خاموش رہتے ہیں، یہ بزدلی کی نشانی ہے، ایک زندہ قوم کسی غلط عمل پر اس وقت آواز اٹھاتی ہے جب اس کا ارتکاب کیا جا رہا ہوتا ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں پانچ سال بعد مسائل اٹھائے جاتے ہیں اور جو لوگ پہلے کچھ اور کہتے ہیں، وہ اپنا بیانیہ بدل لیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ قوم اس سب سے الجھ رہی ہے اور ہم نفرت پھیلا رہے ہیں، اب ایک انٹرا پارٹی ڈائیلاگ ہونا چاہیے اور ایک نیا سوشل کنٹریکٹ وضع کیا جانا چاہیے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے شامل ہونی چاہیے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کہا کہ فوج کے ساتھ کوئی بھی مسئلہ عوامی سطح یا سوشل میڈیا پر اٹھانے کے بجائے اسے اندرون خانہ بند دروازوں کے پیچھے حال کیا جانا چاہیے، اس سب کا فائدہ صرف ملک دشمنوں کو ہوا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا 2017 کے فیض آباد دھرنے کے میں ملوث تمام سرکردہ افراد اور حقائق سامنے آنے چاہئیں تو انہوں نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہمیں اس کے نتائج کو دیکھنا ہوگا، 75 سے 76 سال گزرنے کے بعد بھی ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکے، اس لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم ماضی میں ہی چلتے رہیں یا مستقبل بھی کوئی چیز ہے جس میں ہم نے قدم رکھنا ہے، حال اور مستقبل میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اب بھی سوچتا ہوں اور میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے۔

جب راجا پرویز اشرف سے پوچھا گیا کہ کیا سابق فوجی اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے مطالبات مناسب ہیں تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، پھر آپ اس کے بارے میں باتیں کرتے رہیں اور آپ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے، یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ہے جہاں ہر دو یا تین سال بعد آپ ماضی کے مسائل اٹھاتے ہیں، جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ مستقبل پر نظریں مرکوز رکھتی ہیں۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی کی کارکردگی کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ عہدہ پاکستان کا اعلیٰ ترین آئینی عہدہ ہے، کونسی مجبوریاں تھیں کہ یہ تاثر ابھرا کہ وہ صدر علوی منصب صدارت سے زیادہ پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہیں؟ یہ کوئی مثبت بات نہیں اور انہیں اس سے باز رہنا چاہیے۔

الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے حوالے سے اسپیکر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا خوش آئند بات ہے کیونکہ آئین کی نفی یا آئین کے حکم میں تاخیر اچھی بات نہیں تھی بلکہ ملک میں غیریقینی کی صورتحال تھی اور ہر جگہ یہی بحث ہو رہی تھی کہ الیکشن ہو گا یا نہیں ہو گا اور ایسی فضا قائم ہو رہی تھی کہ کسی کو بھی کچھ علم نہیں تھا، اب آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس تاریخ پر انتخابات ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہوتا کہ سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ میں الجھنے کی بجائے از خود اس معاملے کو حل کرتیں۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ انہیں اس معاملے پر عدالت کے فیصلے کو قبول کرنا پڑا کیونکہ سپریم کورٹ قانونی تشریح اور فیصلوں کے حوالے سے ملک کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں