دو عورتیں شیرخوار بچے اور پانچ سالہ بچی کو گود میں اٹھاکر کار میں بیٹھیں اور کار فراٹے بھرنے لگی، جس کے پیچھے ان بچوں کی ماں روتی چیختی دوڑی اور دوڑتے دوڑتے گرپڑی۔ اس سال ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’مسز چیٹرجی ورسز ناروے‘ کا یہ پہلا منظر دیکھ کر آپ کو لگے کا کہ یہ اغوا کا معاملہ ہے، لیکن کچھ ہی دیر میں آپ کی غلط فہمی دور ہوجائے گی، جب کُھلے گا کہ دراصل یہ ’قانونی اغوا‘ کی واردات ہے، جس کا مقصد کم سِن اولاد کو ماں باپ سے ’تحفظ‘ فراہم کرنا ہے۔

’مسز چیٹرجی ورسز ناروے‘ کی کہانی ناروے میں قیام پذیر ایک بھارتی خاندان پر بیتنے والے دردناک لمحوں کا قصہ ہے۔

2007ء میں بھارت سے ناروے منتقل ہونے والے انوروپ بھٹاچاریہ اور سگاریکا چکرورتی کے دونوں بچوں، بیٹے ابھی گیان اور بیٹی ایشوریا کو 2011ء میں ناروے کے تحفظ اطفال کے ادارے، یعنی بارنےورنٹ (Barnevernet) نے جبراً اپنی تحویل میں لے لیا۔ انوروپ اور سگاریکا کا قصور یہ قرار پایا کہ بارنےورنٹ کی نظر میں وہ اپنے بچوں کی پرورش ڈھنگ سے نہیں کر رہے تھے۔

ادارے کی جانب سے اس جوڑے پر الزامات عائد کیے گئے تھے کہ وہ ’بچوں کو اپنے ساتھ ہی سُلاتے ہیں، ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں (جسے نارویجین حکام بہ زور کھلانا تصور کرتے ہیں) ماں نے بیٹے سے دھمکی آمیز انداز اپنایا (سگاریکا نے ابھی گیان کو اس وقت تھپڑ کے لیے ہاتھ اٹھا کر صرف ڈرایا تھا جب وہ باورچی خانے میں کھانا فرش پر پھینک رہا تھا) اور اس نے ایشوریا کو اس کا ڈائپر بدلتے ہوئے تنہا چھوڑ دیا تھا‘۔

بلآخر بھارتی حکومت نے اس معاملے میں مداخلت کی اور طویل مذاکرات کے بعد یہ طے پایا کہ بچوں کو ان کے چچا ارونا بھاس بھٹاچاریا کے حوالے کرتے ہوئے بھارت بھیج دیا جائے۔ اپریل 2012ء میں اس فیصلے پر عمل ہونے کے بعد ناروے کی حد تک یہ معاملہ اختتام کو پہنچا، لیکن سگاریکا کی جنگ یہیں ختم نہیں ہوئی، بھارت میں بچوں کے حصول کے لیے انہیں ایک اور عدالتی معرکہ سر کرنا پڑا جس کے بعد وہ اپنے بچے حاصل کرنے میں کام یاب ہوئیں لیکن اس سب میں سگاریکا کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہوگئی اور یہ گھر ٹوٹ گیا۔

گذشتہ برس سگاریکا کی خودنوشت ’The Journey Of A Mother‘ شائع ہوئی، جس پر ’مسز چیٹرجی ورس ناروے‘ کا اسکرپٹ استوار ہے۔ اس فلم میں رانی مکھرجی نے سگاریکا کا کردار ’دیبیکا‘ کے نام سے نبھایا اور اپنے اداکردہ شان دار کرداروں میں ایک اور اضافہ کردیا ہے۔

یہ فلم دیکھتے ہوئے بچوں کے تحویل میں لینے پر مُصر، اس ادارے کی ڈھٹائی اور ظالمانہ انداز کا راز اس وقت فاش ہوتا ہے جب ادارے کا وکیل ’دیبیکا‘ کے دیور کو بچے حاصل کرنے کے لیے کہتے ہوئے بھاری رقم کا لالچ دیتا ہے، جس میں سے آدھی رقم ادارے کے اس معاملے سے متعلق حکام کو دینا ہوگی۔

سگاریکا پہلی ماں نہیں جس نے بچوں کی جبری تحویل کا درد سہا۔ اس حوالے سے تھوڑی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ایسی کتنی ہی کہانیاں ہیں اور یہ کہ تحفظِ اطفال کا یہ ادارہ تو سخت تنقید کی زد میں ہے۔ کچھ بچے جنہیں بارنےورنٹ نے والدین سے چھین کر فوسٹر ہومز بھیج دیا، بڑے ہوکر اس ادارے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔

تونجے اومدھال (Tonje Omdahl) بھی ان میں سے ایک ہے۔ اسے چھے ماہ کے لیے فوسٹر ہوم بھیجا گیا تھا۔ اومدھال کو تن تنہا پالنے والے اس کے والد پر اپنی بیٹی سے گالی گفتار اور اسے نظرانداز کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ وہ کہتی ہے ’یہ سچ نہیں تھا‘۔ اومدھال بتاتی ہے کہ اس کے پرائمری اسکول میں اسے مسلسل تنگ (bully) کیا جارہا تھا، جس کے باعث اسکول جانے کا سوچ کر ہی وہ خوف زدہ ہوجاتی تھی۔ اُس کے والد نے اس معاملے کی شکایت کی، جس کا ازالہ تو ایک طرف، اسکول کی انتظامیہ نے اُلٹا تحفظ اطفال کے ادارے سے رجوع کرکے کہا کہ اومدھال نامانوس طرزعمل کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس کے گھر میں کچھ گڑبڑ ہے۔ اپنی جائے نگہ داشت میں بیتے دنوں کا تجربہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ اس کی وجہ سے وہ زندگی بھر کے لیے صدمہ زدہ ہوگئی ہے۔

مسز چیٹرجی ورس ناروے’ کا اسکرپٹ استوار ہے
مسز چیٹرجی ورس ناروے’ کا اسکرپٹ استوار ہے

اس کا کہنا ہے کہ نارویجین اخبارات شاذونادر ہی ان معاملات پر کچھ لکھتے ہیں، اور اگر وہ ایسا کریں بھی تو حکامِ بالا اس سلسلے میں کچھ زیادہ نہیں کرتے۔

ناروے سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل ماریئس رائکیراس کے مطابق ایک تحقیق بتاتی ہے کہ بچوں کو ماں باپ سے چھین کر غیروں کی نگہداشت میں دینے کی وجہ منشیات اور شراب کا استعمال یا ان کے گھروں کا زہرآلود ماحول نہیں، بلکہ بارنےورنٹ کی جانب سے ’والدین کا پرورش کی صلاحیت سے نابلد ہونا‘ اپنی مداخلت کا سرفہرست جواز بتایا جاتا ہے۔ تاہم نہ ہی یہ ادارہ اور نہ اس کے اقدامات کے حق میں آنے والے فیصلے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ آخر یہ پرورش کے اصول یا طریقے ہیں کیا؟

نارویجین قوانین کی رو سے بارنےورنٹ کو کُھلی چھوٹ حاصل ہے اور وہ کسی عدالت کی اجازت کے بغیر بچوں کو اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔ خاص کر قانون ’ایمرجینسی کیئر آرڈر‘ تحفظ اطفال کے ادارے کو یہ اختیار دیتا ہے۔ انسانی حقوق کے راہ نما عرصے سے ناروے میں تحفظ اطفال کے ادارے میں اصطلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں، مگر ان کی آواز اب تک صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ہے۔

تارکین وطن خاندان بارنےورنٹ کا خاص ہدف بنتے رہے ہیں، جو پورے ناروے کے 400 بلدیاتی علاقوں میں سرگرم عمل ہے۔ بچوں، نوجوانوں اور خاندانی امور کے لیے قائم ناروے کے سرکاری ادارے، جس کا مخفف Bufdir ہے، کے مطابق 2021ء تک 9 ہزار 938 بچے والدین سے لے کر افراد اور اداروں کی کفالت میں دیے گئے، جن میں سے 3 ہزار 561 یعنی 37 فی صد تارکین وطن خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ واضح رہے کہ تارکین وطن ناروے کی آبادی کا صرف 16 فی صد ہیں۔

ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں شوہر کی عدم موجودگی میں بچے پالنے میں مصروف سیسیلی کی آپ بیتی بھی بچوں کے تحفظ کے نام پر ہونے والے ظلم کی کتھا ہے۔ سیسیلی سے اس کی بچی چھیننے کا سبب یہ بتایا گیا کہ وہ اپنی بیٹی کی مناسب دیکھ بھال نہیں کررہی اور اس نے اس ضمن میں کسی قسم کی مدد لینے سے بھی انکار کردیا ہے۔ ادارے کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ ’ماں اور بیٹی کے مابین قدرتی میل ملاپ (تعامل) نہیں‘۔

سیسیلی کا کہنا ہے کہ اس کی ہر بات کو منفی طور پر لیا گیا۔ مثال کے طور پر سیسیلی کے بقول ’کرسمس کے کچھ دن بعد ایک مقامی اسٹور پر جنجربریڈ نہایت سستے دام یعنی صرف ایک کرون (نارویجین کرنسی) میں فروخت ہورہی تھی۔ میں نے خرید لی تاکہ میں اور میری بیٹی اس سے جنجربریڈ مین (انسانی شبیہ کا بسکٹ) بناسکیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ چونکہ میں نے کرسمس کے بعد خریداری کی اس لیے میرے معاشی حالات خراب ہیں‘۔

’سستے دام جنجر بریڈ خریدنے پر نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سیسیلی کے معاشی حالات خراب ہیں‘
’سستے دام جنجر بریڈ خریدنے پر نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سیسیلی کے معاشی حالات خراب ہیں‘

سیسیلی کا دکھ ہر صاحب اولاد سمجھ سکتا ہے اس کا کہنا تھا کہ ’میں اپنی بیٹی کو بڑے ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکی، میں نے اس کا بچپن کھودیا‘۔

شام میں مصائب سہنے کے بعد ناروے کو جنت سمجھ کر پناہ لینے والے ایک فلسطینی خاندان کو یہاں وہ درد جھیلنا پڑا جو اس ملک کے بے شمار والدین کا مقدر ہے۔ طلاب نامی صحافی کو بشارالاسد شامی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر شام میں پانچ سال اسیری کاٹنا پڑی جس کے بعد وہ اپنے کنبے کے ہمراہ ناروے آگئے جہاں یہ خاندان تقسیم ہوگیا۔ طلاب اور ان کی بڑی بیٹی حبا اور بیٹا ناروے ہی میں رہے جبکہ ان کی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی لین کو پناہ گزینوں کے عمل سے گزرنے پولینڈ جانا پڑا۔

بطور نرس فرائض انجام دینے والی حبا بتاتی ہے کہ ’ایک دن میری بہن اسکول گئی اور پھر واپس نہیں آئی۔ میرے والدین اور بھائی گھنٹوں تک اسے ڈھونڈتے رہے۔ وہ ہر جگہ گئے اور اسے گلیوں میں دیوانوں کی طرح تلاش کرتے رہے مگر وہ نہ ملی۔ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد تحفظ اطفال کے ادارے کے دو افسران ہمارے دروازے پر آئے اور بتایا کہ لین ان کے پاس ہے۔ انہوں نے اس کے زیرِاستعمال چیزیں طلب کیں اور کہا کہ اسے ایمرجنسی کیئر آرڈر کے تحت لے جایا گیا ہے۔ اس نے اسکول نرس کو بتایا تھا کہ اسے گھر میں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘۔

ناروے میں بچوں کے تحفظ کے ادارے سے متعلق قوانین انتہائی سخت ہیں
ناروے میں بچوں کے تحفظ کے ادارے سے متعلق قوانین انتہائی سخت ہیں

لین کو پہلے فوسٹرہوم لے جایا گیا، پھر اسے دیکھ بھال کے ایک ادارے کو سونپ دیا گیا جس کے بعد اسے اسپتال منتقل کیا گیا۔ اس پورے عمل میں ایک سال گزر گیا اور ایک دن وہ اسپتال سے بھاگ کر اپنی ماں کے پاس آپہنچی جو اسے لے کر پولینڈ فرار ہوگئی۔ لین کی والدہ کا کہنا ہے کہ دراصل جسمانی تشدد کا الزام اسکول کے ایک اور بچے نے لگایا تھا۔

2017ء ناروے میں بچوں کے تحفظ کے ادارے کی سرگرمیوں پر مزید سنجیدہ سوالات اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جب اس ادارے سے وابستہ ایک ماہرِنفسیات انٹرنیٹ پر بچوں کی فحش تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے میں ملوث پایا گیا۔ یہ ماہرِنفسیات (جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا) ان ماہرین میں شامل تھا جنہوں نے اپنے سامنے بچوں سے مبینہ بدسلوکی اور نامناسب رویوں کے متعدد معاملات پیش ہونے پر والدین سے بچوں کی علیحدگی کا فیصلہ سنایا تھا۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ پر متعین یہ ماہرِنفسیات جو بچوں سے جنسی زیادتی کے مناظر پر مشتمل 2 لاکھ تصاویر اور 12 ہزار سے زائد وڈیوز ڈاؤن لوڈ کرچکا تھا، اعترافی بیان کے بعد اسے 22 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ یہ سب 20 سال سے دیکھ رہا تھا جن میں شیرخوار بچوں سے جنسی زیادتی پر مبنی مواد بھی شامل تھا۔

ناروے کے حکام مہاجرین بچوں کو والدین سے علحیدہ کرنے پر کیوں بضد ہوتے ہیں؟—تصویر: فیس بُک
ناروے کے حکام مہاجرین بچوں کو والدین سے علحیدہ کرنے پر کیوں بضد ہوتے ہیں؟—تصویر: فیس بُک

اگرچہ اس پر شعبہِ نفسیات میں کام کرنے پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کردی گئی مگر ناروے میں یہ بحث چھڑ گئی کہ ایک ایسا بدفطرت شخص جو بچوں کے جنسی استحصال کے مناظر سے لطف اٹھانے کا عادی اور شوقین ہے، بچوں کی زندگی کے اہم ترین فیصلہ کیسے کرتا رہا اور حقوقِ اطفال کا محافظ کیسے بنا رہا؟

بچوں کے تحفظ کا ادارہ جسے بارنےورنٹ کہا جاتا ہے، اس سے متعلق تمام سوالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر اس ادارے کے حکام، اہلکار اور اس سے وابستہ ماہرین بچوں کو والدین سے الگ کرنے کے لیے اتنے بے تاب کیوں رہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جواز پیش کرکے اور بیانات و واقعات کا من مانا مفہوم پیش کرکے اپنا مقصد حاصل کرنے پر بضد رہتے ہیں؟ فلم ’مسز چیٹرجی ورس ناروے‘ کے مناظر میں اٹھایا جانے والا مالی منفعت کا نکتہ اس سوال اور اس سے جُڑے سارے سوالوں کا جواب دینے کے لیے کافی ہے۔

انسانی حقوق کے وکیل ماریئس رائکیراس کہتے ہیں کہ ناروے کے تحفظ اطفال کے نظام کا بنیادی محرک مالی منافع ہے۔ ’ناروے ایک امیر ملک ہے جہاں ہر سال 50 لاکھ آبادی تحفظ اطفال کے نظام کے لیے 3 ارب ڈالرز فراہم کرتی ہے۔ نتیجتاً لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا مفاد اس نظام کے برقرار رہنے سے وابستہ ہے۔ جتنے زیادہ بچے آئیں گے، اتنا ہی زیادہ پیسہ حاصل ہوگا‘۔

میرین انجینئر Ove Dag Knarvik جنہیں بارنےورنٹ ان کے دو بچوں سے محروم کرچکا ہے، وہ اس تمام کھیل کا محور پیسے ہی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کے بچے کو لے جانے کے بعد آپ جس سے بھی رجوع کرتے ہیں جیسے وکیل، ماہرِنفسیات، سماجی کارکن، منصف، یہ سب اس نظام کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کا معاشی انحصار (بچوں کی والدین سے) علیحدگی پر ہوتا ہے‘۔

وہ کہتے ہیں کہ کنڈرگارٹن، اسکول اور صحت سے متعلق ادارے بچوں کے تحفظ کے ادارے کو اطلاعات پہنچانے کے پابند ہیں۔ Knarvik مزید انکشاف کرتے ہیں کہ والدین سے جُدا کیے جانے والے بچوں کو جن نگہداشت کرنے والوں یا فوسٹر پیرنٹس کے حوالے کیا جاتا ہے انہیں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بھاری رقم ملتی ہے اور ان کے تحفظ اطفال کے نظام کے کارکنان سے مراسم ہوتے ہیں۔ بچوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ اگر وہ احتجاج یا فرار ہونے کی کوشش کریں گے تو پولیس کی مدد لی جائے گی اور ان کا فون اور لیپ ٹاپ ضبط کرلیا جائے گا۔

ناروے میں مظاہرین بارنےورنٹ کے خلاف بینرز اٹھائے ہوئے ہیں—تصویر: فیس بُک
ناروے میں مظاہرین بارنےورنٹ کے خلاف بینرز اٹھائے ہوئے ہیں—تصویر: فیس بُک

والدین سے علیحدگی بچوں کے لیے جذباتی اور نفسیاتی طور پر تباہ کُن ثابت ہوتی ہے۔ یوں ان میں سے بہت سے بچے تعلیمی عمل میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، وہ اسکول چھوڑ جاتے ہیں یا وہ منشیات کا استعمال بھی شروع کردیتے ہیں۔ ان بچوں میں آتش زنی اور خودکشی کی شرح بلند ہے اور وہ خودانحصاری کے بجائے اداروں پر منحصر زندگی گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں