سینیٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے حق میں قرارداد پر نعرے بازی

17 نومبر 2023
سینیٹ میں متعدد سینیٹرز نے ملٹری کورٹس نامنظور کے نعرے لگائے—فوٹو: ڈان نیوز
سینیٹ میں متعدد سینیٹرز نے ملٹری کورٹس نامنظور کے نعرے لگائے—فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے حق میں قرارداد اور سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی پر زور دیا گیا جبکہ اسی دوران قرارداد کی مخالفت میں نعرے بازی کی گئی۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی سربراہی میں سینیٹ کا اجلاس ہوا جہاں فوجی عدالتوں کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد کے خلاف دوسرے روز بھی احتجاج کیا گیا، جس کے باعث اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

سینیٹ اجلاس شروع ہوا تو متعدد اراکین فوجی عدالتوں کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد کے خلاف نشست پر کھڑے ہو کر احتجاج شروع کر دیا اور اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس دن ہم نے اتنا برا کام کیا ہے۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے قرارداد کو ڈرون حملہ اور جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے متن سے سینیٹ داغ دار ہوئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ ہم جب تک سینیٹ سے منظور قرارداد کے بارے میں بات نہیں کر لیتے ہم ایوان نہیں چلنے دیں گے، سینیٹر زرقہ سہروردی نے کہا کہ جو قرارداد منظور ہوئی اس پر بات کرنے دیں۔

چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نےسینیٹرز کو بات کرنے کی اجازت نہیں دیا اور کہا کہ ابھی وقفہ سوالات ہے، ایوان کی عزت کریں اور نشتوں پر بیٹھ جائیں لیکن سینیٹرز نے شدید احتجاج جاری رکھا، جس پر چئیرمین سینیٹ نے اجلاس پیر کو ساڑھے تین بجے تک ملتوی کر دیا۔

سینیٹ اجلاس ملتوی ہونے پر سینیٹرز نے ایوان میں ملٹری کورٹس نا منظور کے نعرے لگائے جبکہ سینیٹر بہرمند خان تنگی نے ملٹری کورٹس منظور کے نعرے لگائے۔

خیال رہے کہ رواں برس 9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے واقعات کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کرانے کے حق میں قرارداد پیر کو سینیٹ میں منظور کرلی گئی تھی۔

سینیٹر دلاور خان نے9 مئی کے مقدمات کا ٹرائل خصوصی عدالتوں میں چلانے کی قرارداد سینیٹ میں پیش کی تھی جبکہ سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر مشتاق احمد نے اس کی مخالفت کی تاہم اکثریتی بنیاد پر قرارداد منظور کرلی گئی تھی۔

فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلے کے خلاف قرارداد

سینیٹر دلاور خان کی جانب سے سینیٹ میں 13 نومبر کو پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ مسلح افواج کے خلاف تشدد کے ملزمان کا ٹرائل پاکستان کے موجودہ آئینی فریم ورک اور قانونی نظام کے مطابق ایک مناسب اور متناسب ردعمل ہے۔

قرارداد میں بتایا گیا تھا کہ ملک کے آئینی فریم ورک کے اندر، آرمی ایکٹ کے تحت ریاست مخالف توڑ پھوڑ اور تشدد کے ملزمان کا ٹرائل اس طرح کی کارروائیوں کے خلاف ایک رکاوٹ کا کام کرتا ہے، ہم شہدا کے خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے ملک کے لیے نمایاں قربانیاں دی ہیں۔

سینیٹردلاور نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے عدم تحفظ کا اظہار کیا گیا ہے اور شہدا کے اہل خانہ کو تشویش ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہ ہونے سے دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذمہ داروں کی حوصلہ افزائی کا امکان ہے۔

مزید بتایا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شہدا کی قربانیوں کو کالعدم قرار دیا ہے۔

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو یقینی بنا کر دہشت گردی سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ شہادت کے جذبے کو ترک کرتے ہوئے دہشت گردوں، ریاست مخالف عناصر، غیر ملکی ایجنٹوں اور جاسوسوں کا عام عدالتوں میں ٹرائل کرنے کے لیے نرمی فراہم کرتا ہے اور عدالت عظمیٰ نے موجودہ طریقہ کار کو مدنظر نہیں رکھا۔

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں کی طرف سے دی جانے والی سزائیں صوابدیدی نہیں ہیں اور مناسب عمل اور رسمی کارروائیوں کے بعد سنائی جاتی ہیں، فوجی عدالتوں کے احکامات کے خلاف اپیل کے عمل کی موجودگی میں جس میں چیف آف آرمی سٹاف اور صدر سے اپیل کے مواقع اور عدالتوں میں رٹ پٹیشنز دائر کرنے کا اختیار بھی شامل ہے۔

فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ تک بھی پہنچ سکتی ہیں لیکن اس سے نظر انداز کیا گیا، آرمی ایکٹ کی دفعات اور بنیادی طریقہ کار اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 10-اے کے تحت منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی نہ ہو۔

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ سویلین کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلنے چاہئیں، خصوصی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے 23 اکتوبر کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں