پی ٹی آئی کو سیاسی سرگرمیوں کی ’اجازت‘ کا معاملہ، پشاور ہائیکورٹ کی حکومت، الیکشن کمیشن کو تنبیہ

22 نومبر 2023
عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر سماعت 23 نومبر تک ملتوی کر دی—فائل فوٹو: پی ایچ سی ویب سائٹ
عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر سماعت 23 نومبر تک ملتوی کر دی—فائل فوٹو: پی ایچ سی ویب سائٹ

پشاور ہائی کورٹ نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو خیبرپختونخوا میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہ دی گئی تو وہ وضاحت کے لیے نگران وزیر اعلیٰ اور چیف الیکشن کمشنر کو طلب کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کی جانب سے صوبائی حکومت اور مانسہرہ کی ضلعی انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور چیف الیکشن کمشنر سے صوبے میں آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکامی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

جسٹس سید محمد عتیق شاہ کے ساتھ دو رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز انور نے تعجب کا اظہار کیا کہ اگر سیکیورٹی صورتحال اتنی حساس ہے کہ ڈپٹی کمشنر پشاور ایک سیاسی جماعت کو عوامی اجلاس کے انعقاد کی اجازت نہیں دے رہے تو پھر الیکشن کمیشن کس طرح عام انتخابات کرائے گی۔

ایڈووکیٹ جنرل عامر جاوید نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی ایڈیشنل چیف سیکریٹری (داخلہ) عابد مجید نے صوبے بھر کے ڈپٹی کمشنر کا اجلاس طلب کیا ہے تاکہ سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔

انہوں نے اجلاس کے نتیجے کے حوالے سے رپورٹ 2 دن کا وقت مانگتے ہوئے اصرار کیا کہ حکومت اس معاملے پر آئین اور قانون کے مطابق عمل کرے گی۔

عدالت نے نگران حکومت اور مانسہرہ کی ضلعی انتظامیہ کے خلاف ’عدالتی احکامات کے باوجود ورکرز کنونشن کے انعقاد کی اجازت نہ دینے‘ کے خلاف پی ٹی آئی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت 23 نومبر (جمعرات) تک ملتوی کر دی۔

یہ درخواست پی ٹی آئی کے صوبائی صدر علی امین گنڈاپور، صوبائی قانونی کورآرڈینیٹر مشال اعظم اور انصاف لائرز فورم کے صوبائی نائب صدر ملک ارشد نے دائر کی تھی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ متعلقہ افسران بشمول صوبائی چیف سیکریٹری، مانسہرہ کے ڈپٹی کمشنر، ڈی پی اور اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے وکلا شاہ فیصل، علی زمان، انعام یوسف زئی اور دیگر پیش ہوئے اور بتایا کہ ہائی کورٹ بینچ نے 26 اکتوبر کو پی ٹی آئی کو صوبے بھر میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے کے بعد معاملہ درخواست نمٹا دی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ کسی بھی حلقے کی جانب سے صوبے میں پی ٹی آئی کو ورکرز کنونشن اور انتخابی مہم چلانے پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن پارٹی کو مانسہرہ کی ضلعی انتظامیہ نے 5 نومبر کو ورکرز کنونشن کے انعقاد کی اجازت نہیں دی۔

اے جی نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں لیکن اس بات پر اصرار کیا کہ سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے قانون کے ’کچھ تقاضوں‘ پر عمل کرنا ہوگا۔

جسٹس اعجاز انور نے مشاہدہ کیا کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں، اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرر ہی۔

ایڈووکیٹ علی زمان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی تھی جس میں 26 نومبر کو ورکرز کنونشن کے انعقاد کی اجازت مانگی تھی۔

انہوں نے کہا کہ تاہم ڈپٹی کمشنر نے 20 نومبر کو دفعہ 144 نافذ اور 5 سے زیادہ افراد کو جمع ہونے پر پابندی عائد کردی، جس کا مقصد پی ٹی آئی کو کنونشن کے انعقاد سے روکنا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں