بلوچستان: تربت میں ’دورانِ حراست قتل‘ کے خلاف احتجاج جاری

25 نومبر 2023
لواحقین کا دعویٰ ہے کہ بالاچ مولا بخش کو سی ٹی ڈی کی حراست میں قتل کیا گیا—فائل فوٹو: رائٹرز
لواحقین کا دعویٰ ہے کہ بالاچ مولا بخش کو سی ٹی ڈی کی حراست میں قتل کیا گیا—فائل فوٹو: رائٹرز

بلوچستان کے علاقے تربت میں فدا شہید چوک پر بالاچ مولا بخش کی میت رکھ کر لواحقین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے سول سوسائٹی کے افراد کے ہمراہ احتجاجی مظاہرہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بالاچ مولا بخش کی میت چند روز قبل لواحقین کے حوالے کی گئی تھی، محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کا دعویٰ ہے کہ تربت میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائی کے دوران بالاچ مولا بخش 3 دیگر افراد سمیت مارا گیا تھا۔

تاہم مقتول کے اہل خانہ نے اُن کے قتل کے حوالے سے سی ٹی ڈی کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے اصرار کیا کہ انہیں جعلی مقابلے میں مارا گیا کیونکہ وہ پہلے ہی سی ٹی ڈی کی حراست میں تھے اور انہیں 29 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے خاندان کے افراد نے بتایا کہ بالاچ مولا بخش کو مقامی عدالت میں بھی پیش کیا گیا تھا اور عدالت نے انہیں 21 نومبر کو پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا۔

لواحقین کا دعویٰ ہے کہ بالاچ مولا بخش کو سی ٹی ڈی کی حراست میں قتل کیا گیا، دیگر 3 لاشوں کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

احتجاجی مظاہرے میں سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور کیچ کی تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور دیگر لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

قتل کے خلاف تربت شہر میں مکمل ہڑتال بھی کی گئی، تمام بازار، تجارتی مراکز، مارکیٹس اور دیگر کاروباری ادارے بند رہے۔

وکلا برادری نے متاثرہ خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دھرنا شروع ہونے کے بعد سے تربت میں عدالتوں کا بائیکاٹ بھی کر رکھا ہے۔

جمعہ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما وسیم صفر نے سی ٹی ڈی کے آپریشن کو ’جعلی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چاروں افراد سی ٹی ڈی کی حراست میں مارے گئے اور ان کی لاشیں بعد میں ہسپتال میں ڈال دی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 روز میں تربت اور خضدار میں 3 مبینہ مقابلے ہوئے ہیں جن میں 10 افراد مارے جا چکے ہیں۔

انہوں نے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام مقابلے فرضی تھے اور ان مقابلوں میں مارے گئے لوگ پہلے ہی حراست میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ علاقے میں ان جعلی مقابلوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں، ان فرضی مقابلوں میں ملوث تمام اہلکاروں کی گرفتاری تک دھرنا جاری رہے گا۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی ماورائے عدالت قتل کی مذمت

دریں اثنا ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی مذمت کی جوکہ بلوچستان، خاص طور پر کیچ اور اس کے اطراف کے علاقوں سے مسلسل رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔

کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ ماورائے عدالت قتل کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہیں، جینے کے حق کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے، واقعے کے مجرموں کو دیے جانے والا استثنیٰ ختم کرنا چاہیے اور ذمہ داروں کو حساب دینا چاہیے۔

دریں اثنا سی ٹی ڈی کے ترجمان نے گزشتہ روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ بالاچ مولا بخش کو گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا تھا اور وہ 21 نومبر تک پولیس کی تحویل میں رہا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بالاچ مولا بخش نے دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان جگہوں کی نشاندہی کی تھی جہاں اس کے دیگر ساتھی چھپے ہوئے تھے۔

سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ بالاچ مولا بخش اپنی دی گئی اطلاع پر سی ٹی ڈی کی کارروائی کے دوران کراس فائرنگ میں مارا گیا، جب سی ٹی ڈی اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لیا تو مسلح افراد نے فائرنگ کی جس میں بالاچ مولا بخش شدید زخمی ہونے کے سبب مارا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں