ذکر ہوجائے ’فکشن سے مکالمہ‘ کا، وہ کتاب جسے ہر پڑھنے والا جوابات میں دلچسپی لیتے ہوئے پڑھے گا مگر درحقیقت یہ اقبال خورشید کے سوالوں کی کتاب ہے۔ سوال جو انسان کی اولین اور اہم ترین ایجاد ہے، کُل فسلفہ، ساری سائنس، پوری ٹیکنالوجی، تاریخ، آرٹ، ادب سب کے غنچے اسی شاخ پر پھوٹے ہیں۔ سوال کا یہ ادراک ہی ادبی مکالموں کے اس مجموعے کی ابتدا کتابِ مقدس کی اس آیت سے کرواتا ہے،’ابتدا میں محض سوال تھا۔‘

پہلے پہل یہ سطر ہی صاحب کتاب کی سوال شناسی کی گواہ بن کر سامنے آتی ہے اور جب صفحہ درصفحہ اقبال خورشید کے استفہامیہ جملوں سے واسطہ پڑتا ہے تو قاری اس کے مطالعے کی وسعت، صاحب گفتگو کے کام سے گہری واقفیت اور پوچھنے کے ہُنر کی استعداد کا قائل ہوتا چلا جاتا ہے اور طے پاتا ہے کہ اگر یہ ’کُھل جا سم سم‘ کے منتر سے سوال نہ ہوتے تو کتنی ہی یادوں، خیالات اور افکار کا خزانہ بند دروازوں کے پیچھے چُھپا کا چُھپا رہ جاتا۔ سوالوں کی بات کو ذرا دم لینے کے لیے یہیں چھوڑ کر اب جوابوں کی طرف چلتے ہیں جواب جن میں سوچ کے نت نئے زاویے ہیں، حیران کرتی نکتہ آرائیاں ہیں، بیتے پَلوں کی چاپ ہے، بوسیدہ اوراق کی پھڑپھڑاہٹ ہے اور انکشافات ہیں۔

انکشافات۔۔۔ جیسے ادبی پرچے ’ذہن جدید‘ کے سروے میں ’اُداس نسلیں‘، ’آگ کے دریا‘ پر فوقیت حاصل کرگیا لیکن ’اُداس نسلیں‘ کے خالق عبداللہ حسین نے یوں وضع داری نبھائی کے ’آگ کا دریا‘ کی مصنفہ قرة العین حیدر کو دُکھی نہ ہونے دیا۔ موہن جو دڑو کے پس منظر میں تحریرکردہ ’بہاؤ‘ جیسا اچھوتا ناول تخلیق کرنے والے مستنصر حسین تارڑ بتارہے ہیں کہ اس ناول کا کردار ’پاروشنی ایک جیتی جاگتی عورت کا عکس ہے۔ دراصل پاروشنی ایک ایسی لڑکی تھی جو بہت خوبصورت تھی۔ میرے اور اس کے درمیان ایک رشتہ تھا، Understanding کا رشتہ، یا محبت کا رشتہ کہہ لیں۔ پاروشنی اسی کا سراپا ہے۔ چال ڈھال، جسمانی خطوط میں نے وہاں سے لیے مگر میں اسے پانچ ہزار سال پیچھے لے گیا۔‘

تارڑ صاحب کا انٹرویو پڑھتے ہوئے یہ بھی کُھلتا ہے کہ ’بہاؤ‘ کے تصور نے ان کے ذہن میں کس کھڑکی سے راہ پائی۔ وہ ایک جھلستی رات نیم غنودگی کی حالت میں اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھے گلاس سے پانی پیتے ہیں، اور گلاس میں پانی کا ذرا سا کم ہونا ان کے خوابیدہ دماغ میں ہلچل مچا دیتا ہے، اس لمحے دھرتی پر پانی خشک ہونے کے احساس نے انہیں گرفت میں لیے رکھا، ’بہاؤ‘ ہم پر اس ایک پل کا احسان ہے۔ اسد محمد خان نے ڈرامانگاری کے سفر کے دوران نسیم حجازی کے ناول ’شاہین‘ کی صورت گری کرکے اسے ’قابلِ دید‘ بنایا تھا مگر ایسا کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ’میں نسیم حجازی کی لکھی ہوئی کہانی نہیں پڑھوں گا۔‘ وہ اس انکار کی وجہ نسیم حجازی سے بیر یا اختلاف نہیں بلکہ ان کے طور طریقوں کو قرار دیتے ہیں۔ ان ’طور طریقوں‘ کی بابت جو کچھ اسد محمد خان نے بتایا وہ نسیم حجازی کی شخصیت کے جاگیردارانہ ڈھنگ سامنے لاتا ہے۔

شکیل عادل زادہ کی کتھا میں ان کا ’شکیلہ جمال‘ کا روپ پڑھنے والوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کِھلا دیتا ہے۔ اس ’شکیلہ بانو‘ نے اُس دور میں بھارتی فلم نگری پر راج کرتی میناکماری کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ شکیل عادل زادہ یہ بتاکر قاری کو تعجب میں مبتلا کردیتے ہیں کہ کیسے ایک ڈیڑھ صفحے کی کہانی کو پھیلانے کی ٹھانی گئی تو ’ان کا‘ جیسا طویل اور ڈائجسٹ پڑھنے والوں میں مقبول ترین سلسلہ وجود میں آیا۔ فکشن، مصوری، رقص اور اداکاری کی جہتیں لیے ایک مکمل آرٹسٹ انور سجاد کی کہانی بتاتی ہے کہ ان کا رقص سیکھنا اداکاری کی مجبوری تھی۔ انہیں ریاست اودھ کے آخری حکمران واجد علی شاہ سے اپنے لکھے کھیل میں مرکزی کردار نبھانا تھا، سو کتھک کے ماہر واجد علی شاہ کی زندگی اسکرین پر سجانے کے لیے انہوں نے اعضا کی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ یہ ڈراما تو پیش نہ ہوسکا لیکن انور سجاد اس بن کِھلے مرجھا جانے والے غنچے کے طفیل رقاص بھی بن گئے۔

کتاب میں ان شخصیات کے علاوہ انتظار حسین، حسن منظر، فہمیدہ ریاض، محمد حمید شاہد، مرزا اطہر بیگ، محمد حنیف، اخلاق احمد، آصف فرخی، خالد جاوید، اے خیام اور آمنہ مفتی سے کیے گئے مکالمے بھی شامل ہیں جن میں سے ہر گفتگو بالخصوص اردو افسانے اور ناول کے حال و ماضی، اتار چڑھاؤ، ان اصناف کے سروکار، ان میں در آنے والے رجحانات، ادبی تحریکوں اور ادب سے جڑے مسائل کا احاطہ کرتی ہیں۔ یوں اس کتاب کے صفحات میں سفر کرتے ہم عہدِحاضر میں اردو فکشن کی نہایت اہم شخصیات کے ذاتی کوائف تک رسائی پاتے ہیں اور ان کے ادبی سفر، نظریات، پسند ناپسند اور ہم عصر ادب کے بارے میں ان کی رائے سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔

اس کتاب کا حصہ ہر مکالمے سے پہلے ہمیں اقبال خورشید کی لُبھاتی، گرفت میں لیتی اور کسی دلکش منظر پر چھاکر اسے دلفریب اور پُرتجسس بناتی دُھند جیسی نثر کا اسیر ہونا پڑتا ہے۔ ایک بار ان تعارفی جملوں کی پکڑ میں آکر بچ نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اقبال ان نثرنگاروں میں سے ہیں جو تحریر کو تصویر بنادینے کا ہُنر جانتے ہیں۔ ان کے ہاں سیدھی سپاٹ تحریر کا کوئی تصور نہیں، وہ جملوں کی ساخت اور لفظوں کی بُنت کو نیا ڈھب دیتے ہوئے اپنی بات کہتا ہے۔

یہ مکالمے پیش کرتے ہوئے وہ یوں آغاز کرتا اور جادوئی فضا بناتا ہے کہ پڑھنے والے کے لیے شخصیت ایک بھید بن جاتی ہے۔ مثلاً یہ دیکھیے،’قصّہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ دنوں ساحل پر واقع ایک سرائے میں جہاں بحیرہ عرب کا پانی آتا تھا جن پر سمندری پنچھی پرواز کرتے، ملاقات ہماری فکشن کے ایک فسوں گر سے ہوئی، جنہیں دنیا انتظار حسین کے نام سے جانتی ہے‘۔ آگے چلیے،’یہ سرد، خاموش راتوں کی بے انت تنہائی تھی جس سے نبردآزما ہونے کے لیے میں نے خود کو ایک طویل حزنیہ کے حوالے کردیا اور بعد میں اس فیصلے پر جشن منایا۔‘ یوں تعارفی سطروں کی پُراسرار راہدریوں سے گزارتے جب وہ آپ کو شخصیت کے روبرو پہنچاتے ہیں تو آپ پہلے ہی مرعوب اور اسے جاننے کھوجنے کی للک میں بے طرح مبتلا ہوچکے ہوں گے۔

یہ اقبال خورشید کے سوالوں کی کتاب ہے
یہ اقبال خورشید کے سوالوں کی کتاب ہے

لوٹتے ہیں سوالوں کی طرف کہ یہ درحقیقت اقبال خورشید کے سوالوں کی کتاب ہے۔ یہاں میں کسی بھی شخصیت کے بارے میں صرف ان کے سوال لکھ دوں تو آپ جواب پڑھے بغیر اس شخصیت کا اچھا خاصا خاکہ مرتب کرسکتے ہیں۔ پاکستانی اور عالمی ادب میں مشغولیت کی بنا پر افسانے یا ناول کے بارے میں سوال تراش لینا تو اقبال خورشید کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ہی، بطور انٹرویو نگار ان کی کمال کی خوبی یہ ہے کہ وہ فکشن نگار کو متعارف کرواتے اور اس سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی ذاتی زندگی، خیالات، کتابوں، ان میں بسی کہانیوں، کہانیوں کے کرداروں کے جا بہ حوالے دیتے اور مخاطب کے تخلیقی سفر اور سروکار پر اپنی مکمل دسترس کا تعجب خیز مظاہرہ کرتے ہیں۔

صاحب کتاب کی یہ جہت اس کتاب کو ادب لکھنے اور اسے پڑھنے والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ادب کے طلبہ، اساتذہ اور ادبی انٹرویو کرنے والوں کے لیے بھی ایک شاندار دستاویز بناچکی ہے۔ بہ حیثیت صحافی، کالم نویس اور کثیرالمطالعہ قاری وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور ملک کے گزرے ایام کے اہم ترین واقعات کی خبر رکھتے ہیں اور انٹرویونگاری کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انہیں ہر شعبہ حیات کے افراد سے تفصیلی گفتگو کا موقع میسر آچکا ہے۔

ان کے پاس سوچنے اور پوچھنے کو بہت کچھ ہے۔ وہ جب A Case of Exploding Mangoes کے مصنف محمد حنیف سے دریافت کرتے ہیں کہ ’بریگیڈیئر ٹی ایم کی موت سے مماثل ایک واقعہ، حقیقی دنیا میں، محترمہ بے نظیربھٹو کی زندگی میں پیش آیا تھا۔ فکشن کی دنیا میں اسے ضیا دور میں رونما کروانے کا کیا سبب رہا؟‘ تو وہ اس مشہور ناول میں ایک تاریخی غلطی کی نشاندہی بڑی دھیرج سے کرجاتے ہیں۔

یہ تو بس ایک مثال ہے، آپ کو اس مجموعے کے ہر مکالمے میں متعلقہ شخصیت، اس کے کام اور اس کے ہر فکری، ادبی اور ذاتی حوالے اقبال خورشید کی پہنچ میں صاف نظر آئیں گے۔ مختصر کتاب وہ دریا ہے جس میں کئی دریا بہہ رہے ہیں۔


کتاب: فکشن سے مکالمہ

مصنف/ مرتب: اقبال خورشید

ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز

صفحات: 229

تبصرے (0) بند ہیں