نیٹو فضائی حملے میں شہری ہلاکتیں، کرزئی کی مذمت

شائع September 9, 2013

Karzai condemns civilian deaths in Nato airstrike 670
افغان صوبے وردک کے شہر میدان شر میں ہونے والے خودکش حملے کے مقام پر گہرا گڑھا بن گیا، جہاں افغان پولیس کے سپاہی کھڑے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

اسدآباد: افغان صدر حامد کرزئی نے کل اتوار 8 ستمبر کو نیٹو حملے میں  شہریوں کی ہلاکت کی مذمت کی، جس میں مقامی اہلکار کے مطابق سولہ سے زیادہ شہری ہلاک ہوگئے تھے، جبکہ دوسرے علاقوں میں طالبان حملوں میں کم ازکم چار افغان انٹیلی جنس ایجنٹ ہلاک ہوئے۔

نیٹو کی زیرقیادت انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) نے شہریوں کی ہلاکت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے مشرق میں کنڑ صوبے کے اندر فضائی حملے سے دس دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

لیکن صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے گورنر شجاع الملک جلالہ کے مطابق نیٹو کے فضائی حملے میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں سولہ شہری بشمول خواتین اور بچے ہلاک ہوئے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ”حامد کرزئی سمجھتے ہیں کہ بچوں اور خواتین پر حملہ تمام تسلیم شدہ بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہے، اور اس کی سختی کے ساتھ مذمت کی جانی چاہئیے۔“

اس سے پہلے گورنر نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ بارہ شہریوں میں چار خواتین، چار بچے اور چار مرد، القاعدہ سے تعلق رکھنے والے چار دہشت گردوں کے ساتھ ہلاک ہوگئے تھے۔

نیٹو کی کارروائیوں میں شہریوں کی ہلاکتیں افغان حکومت اور امریکی قیادت میں نیٹو افواج کے درمیان کشمکش کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ نیٹو افواج اگلے سال کے اواخر میں اپنے انخلا کے سبب اپنی کارروائیوں کو کم کرتے ہوئے سمیٹ رہی ہیں۔

فروری کے دوران کنڑ میں فضائی حملے سے دس شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد کرزئی نے افغان فورسز پر یہ پابندی عائد کردی تھی کہ وہ ملک میں فضائی مددکے لیے نیٹو سے رابطہ نہیں کریں گی۔

کنڑ صوبے میں پولیس کے سربراہ عبدالحبیب سید خیل نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہفتےکو ہونے والے فضائی حملے میں ایک ٹرک کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں خواتین اور بچے بھی سوار تھے، اس حملے سے ٹرک پر سوار تمام افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کم ازکم چار خواتین، چار بچے اور دو سولین ڈرائیور بھی ہلاک ہوئے تھے۔

ایساف کا کہنا ہے کہ وہ ان الزامات سے آگاہ ہے، اور اس واقعہ کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

ایساف کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہفتے کو ہونے والے حملے کی تصدیق کے لیے اتحادی فوج سے رابطہ کیا گیا ہے، جس میں دشمن فوج کے دس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وقت تک ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ اس حملے میں عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔

وٹاپور ڈسٹرکٹ، جہاں یہ حملہ ہوا ، ایک مقامی فرد زیارت گل نے اس حملے کو سفاکانہ قرار دیا۔

 زیارت کل کا کہنا تھا کہ ”انہیں تین یا چار باغیوں کی وجہ سے ٹرک پر حملہ نہیں کرنا چاہئیے تھا، عام لوگوں کی زندگی کہیں زیادہ اہم اور قیمتی تھی۔“

پاکستان کی سرحد کے ساتھ کنڑ کا صوبہ طالبان کی قیادت میں باغیوں کا مضبوط گڑھ ہے اور یہ غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

صوبائی ترجمان عطاءاللہ خوگیانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سے پہلے اتوار کو چھ حملہ آور جو بندوقوں اور خودکش جیکٹوں سے لیس تھے، میدان شر میں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کی ایک بلڈنگ پر حملہ کیا تھا، یہ کابل کے جنوب میں وردک صوبے کا دارالحکومت ہے۔

پہلا حملہ آور اس وقت ہلاک ہوا جب اس نے بلڈنگ کے اندر دیگر پانچ حملہ آوروں کو راستہ دینے کے لیے بارودی مواد سے بھری ہوئی گاڑی بیورو کے گیٹ کے پاس دھماکے سے تباہ کردی۔

انہوں نے کہا کہ ”پانچ حملہ آور اور چار انٹیلی جنس آفیسر بعد میں ہونے والی جھڑپ میں ہلاک ہوئے جبکہ تیس کے قریب شہری زخمی ہوئے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ لڑائی ایک گھنٹے تک جاری رہی اور اس وقت ختم ہوئی جب تمام دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔

اے ایف پی کے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ اس نے وقوعے پر پانچ دہشت گردوں کی لاشیں دیکھی تھیں۔

وردک سینٹرل ہسپتال کے ایک اہلکار ڈاکٹر غلام فاروق وردک نے بتایا کہ ایک سو پچاس سے زیادہ افراد جن میں عام شہریوں کی تعداد زیادہ ہے، زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک سو تریپن افراد جن میں تیئس خواتین اور دو بچے بھی زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے، ان میں سے بارہ عام لوگوں کی حالت نازک ہے۔

طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے حملہ آوروں نے افغان فورسز کو بڑی تعداد میں جانی نقصان پہنچایا تھا۔

امریکی قیادت میں ہونے والے حملے سے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان نے 2011ء میں اپنی شورش کا آغاز کیا تو اس وقت سے لاکھوں افغان شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔

نیٹو فورسز نے جب سے اپنی کارروائیوں میں کمی کی ہے اور افغان فورسز نے ملک بھر میں سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالی ہے، تشدد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

2013ء کے پہلے نصف میں ایک ہزار سے زیادہ ہلاکتیں اور دو ہزار کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ شرح پچھلے سال کی اسی مدت سے تیئس فیصد زیادہ ہے۔

اب تک کے نتائج کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امن کے لیے کی جان والی کوششیں تشدد کے سامنے ناکام رہی ہیں۔

افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے اسلام آباد پر زور دینے پر کہ وہ ان کی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے سلسلے میں مدد فراہم کرے، چنانچہ امن کی کوششوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے پاکستان کی جانب سے ہفتے کے روز سات اہم افغان طالبان قیدیوں کو رہا کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 جون 2025
کارٹون : 22 جون 2025