نادرا بطور قانونی ادارہ کام کرنے کا طریقہ سیکھے، سپریم کورٹ

06 دسمبر 2023
سپریم کورٹ نے کہا کہ نادرا ایک قانونی ادارہ ہے، اسے اپنے قانون کی پاسداری کرنی چاہیے تھی، غیر ضروری قانونی چارہ جوئی نہیں کرنی چاہیے تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے کہا کہ نادرا ایک قانونی ادارہ ہے، اسے اپنے قانون کی پاسداری کرنی چاہیے تھی، غیر ضروری قانونی چارہ جوئی نہیں کرنی چاہیے تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو کارپوریٹ اداروں کی تعریف کرنے اور قانونی چارہ جوئی کا دفاع کرنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے اظہار تاسف کرتے ہوئے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ایسا لگتا ہے کہ نادرا خود اپنے قانون سے بھی آگاہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی آرڈیننس 2000 کا سیکشن 3(2) یہ کہتا ہے کہ اتھارٹی ایک کارپوریٹ ادارہ ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اسے کسی با اختیار شخص کے توسط سے اپنے نام کا استعمال کرتے ہوئے قانونی کارروائی کرنی ہوگی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے یہ ریمارکس پشاور ہائی کورٹ کے 23 ستمبر 2020 کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے دیے۔

سپریم کورٹ میں درخواست ریجنل منیجر، نادرا آر ایچ او حیات آباد پشاور اور ڈائریکٹر جنرل پروجیکٹ ڈائریکٹوریٹ نادرا ہیڈکوارٹر اسلام آباد کی جانب سے دائر کی گئی تھی جب کہ ان دونوں دفاتر کو یہ درخواست دائر کرنے کا اختیار نہیں تھا، اس نکتے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اپنے تحریر کردہ فیصلے میں مزید کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قانونی کارپوریٹ باڈی نے خود بھی اپنا قانون نہیں پڑھا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست کے عنوان میں مخفف کا ذکر کرنا بھی اس بات کے مطابق نہیں ہے کہ کوڈ آف سول پروسیجر 1908 (سی پی سی) میں کسی فریق کو کس طرح بیان کیا جائے۔

حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نادرا کو یہ سیکھنا چاہیے کہ کارپوریٹ اداروں کی تعریف کیسے کی جانی چاہیے، آرڈیننس کو پڑھنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ قانونی چارہ جوئی کون شروع کر سکتا اور اس کا دفاع کر سکتا ہے۔

نادرا کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل افنان کریم کنڈی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں جواب دہندگان کی جانب سے دائر کی گئی رٹ پٹیشن میں اتھارٹی کی اپنی ترتیب کی پیروی کی گئی اور ٹائٹل بھی وہاں سے ہی کاپی کیا گیا۔

لیکن فیصلے میں کہا گیا کہ اگر جواب دہندگان نے اتھارٹی کی ترتیب کی پیروی نہیں کی ہوتی تو اس اعتراض کا ہائی کورٹ میں جائزہ لیا جانا چاہیے تھا اور سپریم کورٹ کے سامنے غلطی کو برقرار نہیں رکھنا چاہیے تھا۔

اس میں کہا گیا کہ وکیل نے سماعت کے دوران کہا کہ عدالت عظمیٰ کے دفتر نے اعتراضات اٹھائے تھے جب کہ فریقین کو پٹیشن میں بالکل اسی طرح بیان نہیں کیا گیا جیسا کہ انہیں ہائی کورٹ کے سامنے بیان کیا گیا تھا لیکن وکیل نے اس سلسلے میں کسی اعتراض کا حوالہ دیا اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے حکم کا۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ غلطی تسلیم کرنے کی صلاحیت کی خوبی کا قحط ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق قانونی کارروائی کی جانی چاہئے، انہوں نے مزید کہا کہ درخواست گزاروں نے فریقین کی وضاحت سے متعلق طریقہ کار اور نوعیت سے کے حوالے سے آرڈیننس کی پیروی کی نہ پاکستان کرمنل پروسیجر کی تعمیل کی۔

افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس میں کہا گیا کہ نادرا ایک قانونی ادارہ ہے، اسے اپنے قانون کی پاسداری کرنی چاہیے تھی اور غیر ضروری قانونی چارہ جوئی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

اس میں مزید کہا گیا کہ وکیل کو صرف اس بات پر تحفظات تھے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں آرڈیننس کے سیکشن 11 اور قواعد کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر پشاور ہائی کورٹ کو مناسب معاونت فراہم کی جاتی تو ہائی کورٹ بھی اس پہلو پر بھی توجہ دیتی۔

تبصرے (0) بند ہیں