بالاچ بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کا مقدمہ سی ٹی ڈی افسران کے خلاف درج

09 دسمبر 2023
مقتول کے لواحقین، سیاسی اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ سی ٹی ڈی آپریشن جعلی تھا — فوٹو: عبداللہ ظاہری
مقتول کے لواحقین، سیاسی اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ سی ٹی ڈی آپریشن جعلی تھا — فوٹو: عبداللہ ظاہری

بلوچستان کے علاقے تربت میں زیرحراست بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے قتل کے خلاف محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایس ایچ اور دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیاہے اور بلوچستان حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔

محکمہ انسداد دہشت گردی(سی ٹی ڈی) کے مبینہ آپریشن میں مارے جانے والے نوجوان بالاچ بلوچ کے ورثا کی مدعیت میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تربت کے احکامات پر سی ٹی ڈی کے ایس ایچ او سمیت دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

ڈان نیوز کو دستیاب مقدمے کی کاپی کے مطابق تربت سٹی پولیس اسٹیشن میں مقتول کے والد مولابخش کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ میرے بیٹے کو 29 اکتوبر 2023 کی رات نامعلوم افراد نے اٹھا کر لے کسی نامعلوم مقام پر لے گئے تھے اور اسے حبس بے جا میں رکھا اور پھر 20 نومبر 2023 کو میرے بیٹے کے خلاف سی ٹی ڈی تھانہ تربت میں مقدمہ درج کیا گیا جس پر 21 نومبر 2023 کو تفتیشی افسر نے سیشن جج سے 10 دن کا جوڈیشل ریمانڈ حاصل کیا تھا۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ میرا بیٹا سی ٹی ڈی کی زیر حراست جوڈیشل ریمانڈ میں تھا اور جعلی پولیس مقابلے میں تین دیگر افراد کے ہمراہ قتل کردیا گیا لہٰذا سی ٹی ڈی کے ریجنل آفیسر، تفتیشی افسر، ایس ای او اور لاک اپ انچارج کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

دوسری جانب محکمہ داخلہ بلوچستان نے بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ پانچ رکنی فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کمیٹی کے سربراہ سیکریٹری فشریز عمران گچکی کو تبدیل کرتے ہوئے سیکریٹری بلدیات نور احمد پرکانی کو سربراہ مقرر کردیا ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی میں ڈی آئی جی کوئٹہ، ڈپٹی کمشنر کیچ، ایس ایس پی گوادر اور لواحقین کی تجویز پر کسی ایک شخص کو رکن نامزد کیا گیا ہے۔

دہشت گردوں کے سہولت کار بھی دہشت گرد ہیں، جان اچکزئی

دوسری جانب نگران وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بالاچ بلوچ نے دوران تفتیش 11 دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور ان کی نشاندہی پر سی ٹی ڈی نے کارروائی کی جہاں فائرنگ کے تبادلے میں وہ اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے خود مارا گیا جبکہ سی ٹی ڈی کی جوابی فائرنگ سے دیگر تین دہشت گرد مارے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی سپورٹ سمجھ سے بالاتر ہے اور دہشت گردوں کے سپورٹ کرنے ان کے سہولت کار ہیں اور دہشت گردوں کے سہولت کار بھی دہشت گرد ہوتے ہیں۔

ادھر بلوچستان کے علاقے تربت سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہونے والے لانگ مارچ کے شرکا کو انتظامیہ نے کنٹینر لگا کر خضدار کے مقام پر روک دیا۔

احتجاجی دھرنا اور ریلی کی قیادت بلوچستان یکجہتی کونسل کی خواتین رہنما کررہی ہیں جبکہ ریلی میں شریک سول سوسائٹی تربت کے چیئرمین گلزار دوست بلوچ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ دھرنے کے 13واں دن دھرنا ختم کر کے 5دسمبر کو کوئٹہ کی جانب روانہ ہوئے اور پنجگور میں ایک دن اور ایک رات قیام کیا۔

انہوں نے بتایا کہ پنجگور میں رجسٹریشن کا عمل مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک احتجاجی ریلی اور جلسہ منعقد ہوا جس کے بعد نال کی جانب روانہ ہوئے، اس دوران ریلی جن جن علاقوں سے گزرتی رہی، وہاں انٹرنیٹ سروس کو معطل رکھا گیا اور آج ہم خضدار پہنچے جہاں کنٹینر لگاکرایک بار پھر ہمیں روکا گیا۔

گلزار دوست نے بتایا کہ آج احتجاجی دھرنے اور ریلی کا 17واں روز ہے اور جس جس علاقے اور قصبوں سے ہم گزرتے ہیں ہمارا شاندار استقبال کر کے بالاچ بلوچ کی فیملی اور شرکا سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ہم ایک روز بعد کوئٹہ کے لیے دوبارہ روانہ ہوں گے۔

قتل کے خلاف اور مقدمے کے اندراج کے لیے تربت میں 13روز تک دھرنا دیا گیا تھا اور اس دھرنے کو سول سوسائٹی سمیت مختلف قوم پرست سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔

دھرنے کے شرکا کی جانب سے حکومت کے سامنے چارٹر آف ڈیمانڈ رکھتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ سی ٹی ڈی کو غیر مسلح کیا جائے اور جعلی این کاﺅنٹرز کے نام پر لاپتا افراد کا قتل عام بند کیا جائے۔

اس کے علاوہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ لوگوں کو لاپتا کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، تمام لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور تربت کے مبینہ جعلی این کاﺅنٹر میں شامل سی ٹی ڈی مکران کے ریجنل آفیسر سمیت ان کی ٹیم کو معطل کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں