لکھاری، مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری، مصنف اور صحافی ہیں۔

خوشخبری یہ ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد 8 فروری کو ہورہا ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ یہ انتخابات بھی مذاق ثابت ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انتخابات کا شیڈول جاری کردیا گیا، شاید اس صورتحال نے انتخابات کے حوالے سے ابہام کچھ حد تک کم کیا ہو لیکن ان کی شفافیت پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ گمان یہ ہورہا ہے کہ پسندیدہ لوگوں کے لیے میدان صاف کیا جارہا ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوششوں کے تناظر میں ان معاملہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان مقابلے پر آچکا ہے۔ اس پورے کھیل نے انتخابی عمل کو مضحکہ خیز بنادیا ہے۔ یہ شاید پہلا موقع نہیں ہے کہ ہم نے ایسے حالات دیکھے ہوں لیکن صورتحال کبھی اتنی خطرناک نہیں تھی۔ یہ سب ’مثبت‘ نتائج سامنے لانے کی کوششیں ہیں۔

لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس طرح ختم نہیں کیا جاسکتا۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے طاقت کے مظاہرے نے ظلم و ستم اور پابندیوں کو ٹھکراتے ہوئے بڑھتی ہوئی مزاحمت کی جھلک پیش کی۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں آواز دبانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ اب پی ٹی آئی ان پابندیوں کے خلاف مصنوعی ذہانت کا استعمال کررہی ہیں۔

حال ہی میں پی ٹی آئی نے انتخابی مہم کے لیے اپنے پہلے ورچوئل جلسے کا انعقاد کیا۔ یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے پی ٹی آئی نے اپنے قائد عمران خان کی آواز بھی بنائی۔ اگرچہ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے 5 گھنٹے طویل یہ ورچول جلسہ تعطل کا شکار ہوا لیکن اس کے باوجود یہ کسی حد تک اپنا مؤقف پیش کرنے میں کامیاب رہے۔

مصنوعی ذہانت پر مبنی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا ایسا استعمال اس حوالے سے ریاست کی جانب سے عائد پابندیوں کی حدود کو ظاہر کرتا ہے جوکہ انتخابات سے قبل سیاسی حرکیات کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ یہ ان طاقتوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کردے گا جوکہ انتخابی عمل میں مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔

مرکزی دھارے کی دو سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی تو سوشل میڈیا کے استعمال میں بہت پیچھے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا پر غلبہ حاصل ہے جس سے وہ نوجوانوں تک اپنا پیغام پہنچانے میں کافی حد تک کامیاب ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے ووٹرز کو بڑی تعداد میں انتخابات والے دن باہر نکلنے کا پیغام، پولنگ کے روز حالات کو الگ رخ دے سکتا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ابھی مزید پتے ہیں۔

پارٹی کی طرف سے کسی بھی ممکنہ چیلنج کو روکنے کے لیے ریاست کی جانب سے جابرانہ ہتھکنڈے اپنانے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کریک ڈاؤن کا دائرہ کار وسیع ہورہا ہے اور اب تیسرے اور چوتھے درجے کے رہنما بھی اس کریک ڈاؤن کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ وہ رہنما تائب ہونے سے انکار رہے ہیں انہیں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی خواتین قیدیوں کی حالتِ زار بھی بدتر ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے اُس فیصلے کو منسوخ کردیا ہے جس میں سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ یوں اس فیصلے کو سیاسی قیدیوں کو مزید دھمکانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن پھر بھی ان تمام سخت اقدامات کے باوجود، لگ نہیں رہا کہ صورتحال پوری طرح قابو میں ہے۔

اگرچہ پی ٹی آئی کے پاس بیان بازی کے علاوہ کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے لیکن درحقیقت ریاست کے جابرانہ اقدامات ان کی حمایت میں اضافہ کررہے ہیں۔ زبردستی پارٹی چھڑوانے اور ان کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوششوں سے پی ٹی آئی کی حمایت میں کمی واقع نہیں ہورہی۔

یہ وہ ماحول ہے جس میں عام انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ عوام میں یہ بڑھتا ہوا خیال کہ انتخابات کے نتائج کا فیصلہ ہوچکا ہے، انتخابی عمل کی ساکھ کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایسے انتخابات سے ملک میں استحکام آسکے گا یا پھر اس سے تقسیم میں مزید اضافہ ہوگا؟

سوشل میڈیا کے دور میں ریاست کے لیے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا انتہائی مشکل ہے۔ متنازع انتخابات کی ساکھ صورتحال کو انتہائی غیر مستحکم کرنے کا سبب بن سکتی ہے جس سے مستقبل کی حکومت کے لیے ملک کو درپیش متعدد چیلنجز سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔

متنازع انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی کسی بھی حکومت کی ساکھ انتہائی کمزور ہوگی جس سے ان کا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار مزید بڑھے گا۔ اس سے ملک میں جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچے گا۔

ہمارے لیے یہ حقیقت لمحہِ فکریہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی اقتدار کے اس کھیل میں اسٹیلشمنٹ کے تمام جابرانہ اقدامات کا ساتھ رہی ہیں۔

درحقیقت سابق وزیراعظم نواز شریف کو اسٹیلشمنٹ کے اس نئے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جس طرح اس پورے نظام میں تبدیلی لائی گئی ہے، اس تناظر میں ان کے خلاف مقدمات میں عدلیہ کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں آنا کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔

اس عدالت جس نے انہیں پہلے ’مجرم‘ قرار دیا تھا، اب وہی عدالت انہیں ان الزامات سے بری کررہی ہے۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ ان کو اقتدار سے ہٹانے اور مجرم قرار دینے والی وہی قوتیں تھیں جو اب مبینہ طور پر 2024ء کے انتخابات میں ان کی سرپرستی کررہی ہیں۔ سزا معطلی کے بعد نواز شریف اب انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں جس سے ان کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے امکانات کو تقویت مل رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو یقین ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آرہے ہیں۔

اب نواز شریف کی جگہ عمران خان کرپشن اور بغاوت جیسے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ سائفر کیس میں عمران خان پر پہلے ہی فردِجرم عائد ہوچکی ہے۔ سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی بھی حکومتی عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام کی مشکوک ساکھ اور جس طرح انہیں سزا دی گئی ہے، یہ بظاہر پولیٹیکل وکٹیمائزیشن کا ایک اور کیس معلوم ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ماضی میں منعقد ہونے والے تمام انتخابات میں اسی طرح ہیرا پھیری کی گئی لیکن اس وقت جاری پری پول منیجمنٹ کی مثال ہمیں کم ہی ملتی ہے۔ انتخابی عمل میں اس قدر مداخلت تو ہمیں فوجی حکومتوں کے ادوار میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔

جس طرح ہمارے ملک کے ہر شعبے میں سیکیورٹی اسٹیلشمنٹ کا اثرورسوخ ہے اس سے انتخابات میں سویلین بالادستی انتہائی مشکل ہے اور اس سے ایک بار پھر ممکنہ طور پر ہائبرڈ اقتدار کا دور شروع ہوگا جس میں سویلین انتظامیہ کا ذیلی کردار ہوگا۔

ایک ریاست جو پہلے ہی لاتعداد مسائل میں گھری ہوئی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی مضبوط نمائندہ حکومت اقتدار میں آئے جو ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرے۔ ملک کو سیاسی تقسیم کی نہیں بلکہ سیاسی طور پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی تاریخ سے کبھی بھی سبق نہیں سیکھتے۔ ان کی تمام تر توجہ صرف قلیل مدتی مفادات پر ہوتی ہے جبکہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے ہدف پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔


یہ مضمون 20 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں