فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

مشہور ٹی وی شخصیت عامر لیاقت پر بہت کچھ لکھا گیا۔ کسی نے ان کو سراہا تو کسی نے ان پر تنقید کی۔ کسی نے انہیں محسنِ انسانیت کا خطاب دیا تو کسی نے انھیں محض ایک انٹرٹینر قرار دیا۔

اگر وہ ایک انٹرٹینر ہیں تو صرف رمضان کے مہینے میں ہی کیوں؟ ہم بچپن میں رمضانوں میں روزہ کاٹنے کیلئے پتنگ اڑایا کرتے تھے۔ سارے فالتو مشاغل رمضان میں ہی پورے کیے جاتے تھے اور وقت تھا کہ کٹتا ہی نہ تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ تو پھر یوں کہیے کہ عامر لیاقت عوام کا ٹائم پاس کرواتے ہیں۔

رمضان میں شراب کی دکانیں بند ہوتی ہیں، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی پینا ترک کر دیتے ہیں۔ غیر مسلم کا تو حوصلہ ہے اور وہ صبر کے گھونٹ پی لیتے ہیں لیکن ہمارے چند موالی دوست اس پابندی پر اکثر شکوہ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں اگر رمضان کے مہینے میں مسلمان، مسلمان کا گلا کاٹ سکتا ہے، ناجائز منافع کما سکتا ہے، رمضان سے پہ؛ے ذخیرہ اندوزی کرکے قیمتیں بڑھا کر لاکھوں، کروڑوں کا ہیر پھیر کر سکتا ہے،  تو پھر شراب نے کیا قصور کیا ہے۔ ایسے موقعہ پر میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ مسلمان تو سارا سال ہی ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں لہذا شراب کی دکانیں سارا سال بند رکھنی چاہییں۔ نا ہی جینے دو اور نا ہی پینے دو۔

ہمارے بچپن میں ٹی وی پر اتوار والے دن پاکستانی فیچر فلم دکھائی جاتی تھی جو دن میں دکھائی جاتی تھی تاکہ عوام چھٹی کا مزہ لوٹ سکیں۔ آج ٹی وی پر چھٹی والے دن حامد میر صاحب کا پروگرام "جینے دو کراچی کو" دکھایا جاتا ہے۔ شائد آج کی انٹرٹینٹمنٹ یہی ہے اور حامد میر صاحب بھی عوام کو عامر لیاقت سے کم انٹرٹین نہیں کرتے۔

"جینے دو کراچی کو" کا یہ بم اچانک پھٹا ہے، سب سے پہلے ملک کی اعلٰی عدالت نے "کراچی بد امنی کیس" کی سماعت دوبارہ شروع کر دی جس میں بڑے بڑے انکشافات ہوئے جن کو عوام نے خوب انجوائے کیا۔

سب سے پہلا انکشاف تو کراچی پولیس کے ایک آفیسر نے یہ کیا کہ ماضی میں آپریشن کے بعد پولیس افسران کو چن چن کر مار دیا گیا لہذا وہ دوبارہ اپنی جانوں کا رسک لینے کو تیار نہیں۔

دوسرا انکشاف رینجرز کے ایک اعلٰی افسر نے یہ کیا کہ پچھلے وزیر پورٹ اور شپنگ کے دور میں نیٹو کے انیس ہزار کنٹینرز غائب کر دیئے گئے (جس کی تردید امریکا کی جانب سے بھی آچکی ہے)۔ کون کہتا ہے کہ پاکستان میں صرف عامر لیاقت ہی ایک انٹرٹینر ہے؟

اعلٰی عدالت کی اس زبردست انٹری کے بعد میڈیا کہاں پیچھے رہنے والا تھا تمام لائیو چینلز پر گفتگو کا محور کراچی ہو گیا۔ خیبر پختونخواہ کے دھماکے اور بلوچستان کی ٹارگٹ کلنگ سب کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

مسلئہ کراچی کا ہو تو پھر حکومت کہاں پیچھے رہنے والی تھی ہمارے ہر دلعزیز وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف صاحب دو روزہ دورے پر کراچی پہنچ گئے جہاں انہوں نے پہلے کراچی کی نمائندہ جماعتوں سے کراچی کے امن کے لیئے مشاورت کی اور ساتھ ساتھ کراچی کے تاجروں کے ساتھ ملاقات میں انھیں یہ یقین دلایا کہ ان کی جان جلد ہی پرچی بھیجنے والوں سے چھڑا دی جائے گی۔

کراچی کے تاجروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی میں بھتہ خوری اور دوسرے جرائم میں دونوں بڑی جماعتیں برابر کی شریک ہیں لہذا ان کی سربراہی میں کیا جانے والا ٹارگیٹڈ آپریشن تعصب کا شکار ہو جائے گا۔

دوسری طرف کراچی پولیس کے چند اہم افسران نے ایک پریس کانفرنس میں یہ اہم انکشاف کیا کہ کراچی دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ پر امن شہر ہے اور یہاں ہونے والے جرائم کی شرح دوسرے بڑے شہروں کی نسبت کہیں کم ہے۔

ہمارے ہونہار اور ایماندار افسران نے بالکل بجا فرمایا، اگر کراچی پر امن شہر نہ ہوتا تو روزانہ کراچی سے ہونے والی تیراسی کروڑ روپے کی آمدنی پولیس اور ان کے یاروں دوستوں کی جیب میں کیسے جاتی؟

وزیر اعظم صاحب کا دوسرا دن بھی نہایت مصروف گزرا۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کی تمام انٹیلی جنس ایجینسز کے اہم افسران سے ملاقات کی جس میں وزیر اعظم صاحب کو چار سو اٹھاون افراد کی لسٹ دی گئی جو کراچی کے امن کی تباہی کے زمہ دار ہیں۔ اس بات کا کھلم کھلا اعلان کرنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ یہ تمام  حضرات شرافت کے ساتھ کراچی سے کچھ دنوں کے لیئے کہیں اور تشریف لے جائیں نہیں تو انھیں پکڑ کر الٹا ٹانگ دیا جائے گا۔

آخر کار وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں وزیر اعظم صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ کراچی کی پولیس امن و امان قائم کرنے میں ناکام رہی ہے لہذا اب جرائم پیشہ افراد کے جو بھی خلاف ایکشن لیا جائے گا اس کی قیادت رینجرز کریں گے۔ اس سلسلے میں رینجرز کے اختیارات میں اضافے کی بات بھی ہوئی جبکہ پولیس اور دوسری انٹیلی جنس ایجینسز کی رینجرز کے ساتھ معاونت کی بھی۔

اس دو روزہ فلم کا کلائمکس اس وقت ہوا جب سرکاری ٹی وی کے مطابق وزیر اعظم صاحب نے موٹر وے پولیس کے آئی جی ذوالفقار چیمہ کو، جن کی پنجاب میں امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے  اچھی ساکھ ہے، آئی جی سندھ مقرر کر دیا. جیسے ہی یہ ہوا سندھ حکومت کا دو دن سے جاری وفاقی حکومت کے ساتھ فلرٹ ایک دم روٹھنے کی دھمکی آمیز اداؤں پر آن اترا اور وزیر اعلٰی سندھ اور ان کے ترجمان شرجیل میمن صاحب نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی اور یوں منانے کی لیے وزیر اعظم صاحب کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

یوں دو دن کا انٹرٹینٹمنٹ پروگرام ختم ہوا۔ وزیر اعظم صاحب اپنے وزراء کے ساتھ اسلام آباد سدھار گئے جبکہ وہ جرائم پیشہ افراد بھی جن کی فہرست وزیر اعظم صاحب کو دی گئی تھی، بیرون ملک یا ملک کے دور دراز کے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ان میں سے ایک صاحب کی تو میں نے تصویر بھی دیکھی جو انہوں نے کسی پہاڑی علاقے سے ایم ایم ایس کی تھی کہ ماشا اللہمحفوظ پناہ گاہ تک پہنچ چکا ہوں اور سب خیریت ہے۔

اب وہی رینجرز، وہی پولیس، وہی سندھ حکومت اور وہی کراچی کی سیاسی پارٹیاں ہیں اور ہم عوام اگلی انٹرٹیمینٹ کے منتظر ہیں۔


Khurram-abbas-blogs-80 خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں