مہینے میں ایک بار ہفتے کی صبح ایک لوڈر رکشہ جوکہ پوسٹرز اور پیغامات سے مزین ہے، لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے سیکٹر یو میں واقع چھوٹے سے پارک کے باہر کھڑا ہوجاتا ہے۔

یہ رکشہ ٹھیک صبح 10 بجے آتا ہے اور الف لیلیٰ بُک بس رکشہ لائبریری کا عملہ رکشے سے باہر آکر اس کا شٹر اوپر اٹھا دیتا ہے۔ اس رکشے میں مختلف گیمز، اسٹیشنری اور کتابوں کے شیلفس موجود ہوتے ہیں۔

کتابیں پھٹی ہوئیں ہیں کیونکہ یہ کسی کے استعمال میں رہ چکی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ ہے جوکہ لوگوں کو پڑھنے کی دعوت دیتی ہیں۔ اپنے صفحات میں محفوظ تصاویر کی وجہ سے بھی یہ لوگوں کو متوجہ کرتی ہیں جبکہ سب سے بڑھ کر یہ کتابیں قارئین کو مدعو کرتی ہیں کہ وہ انہیں محسوس کرسکیں۔

ڈرائیورز، گھروں میں کام کرنے والی عورتوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کے بچے سیکیورٹی بیریئرز کو عبور کرکے قریبی آبادی سے آتے ہیں۔ سرگوشیوں اور قہقہوں کے درمیان ایک بچہ رکشہ کے اندر جاتا ہے اور کچھ منٹوں بعد اس سے باہر آجاتا ہے۔ باہر آنے کے بعد وہ اپنے دوستوں کو جانے کا اشارہ کرتا ہے۔

شاید یہ اس کی زندگی کا پہلا موقع ہے کہ جب اس نے تصاویر والی کہانیوں کی کتابوں کو اتنے قریب سے دیکھا ہے، اس لیے وہ اپنے دوستوں کو بھی یہ کتابیں دکھانا چاہتا ہے۔ اس کے دوست جن کے چہروں پر تجسس عیاں ہے، ہچکچاتے ہوئے وہ اپنے دوست کی پیروی کرتے ہیں۔

دو گھنٹے بعد الف لیلیٰ بک بس (اے ایل بی بی) کی رکشہ لائبریری اپنے پیچھے کتابوں کی روشنی چھوڑتی ہوئی یہاں سے چلی جاتی ہے۔ یہ معاشرے کی دو اکائیوں کے درمیان فرق کو بھی ختم کرتی ہے کیونکہ پسماندہ گھرانوں سے آنے والے بچوں کو دیکھتے ہوئے آس پاس کے گھروں سے متمول طبقے کی بچے بھی رکشہ لائبریری کی جانب آجاتے ہیں۔

رکشہ اور اس میں موجود مواد کے حوالے سے تجسس کا شکار بنگلوں میں رہنے والے یہ بچے شاید پہلی بار حقیقی سماجی تنوع کا ذائقہ چکھ رہے ہوتے ہیں۔ یوں لاہور کے پوش رہائشی علاقے میں کھڑی یہ رکشہ لائبریری کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔

رکشہ میں لائبریری کو دیکھ کر بچے اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں—تصویر: فیس بُک
رکشہ میں لائبریری کو دیکھ کر بچے اس کی جانب متوجہ ہوتے ہیں—تصویر: فیس بُک

اس رکشہ لائبریری کا ماہانہ دورہ علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ آرکیٹیکٹ، آرٹسٹ، ہنر مند گھریلو خواتین اور بزرگ شہری اور ماحولیات کے حوالے سے سرگرم کارکنان نے اس پارک میں جمع ہوکر اپنی اپنی مہارت اور ہمدردی سے ایک منفرد کمیونٹی کے قیام میں پہل کی ہے۔

یہ پروجیکٹ منفرد ہے کیونکہ اس کمیونٹی نے الف لیلیٰ بک بینک کو دعوت دی ہے کہ وہ سیکھنے کے کسی منظم طریقے کے طور پر نہیں بلکہ کتابوں اور الفاظ کو ایک معاشرتی تجربے میں بدلنے کے لیے اپنے کتابوں کے ذخیرے کو استعمال کریں۔

کھانوں، تفریحی مقامات اور اپنے تہواروں کے لیے شہرت رکھنے والے شہرِ لاہور کے عوامی مقامات، پارکنگ لاٹس، بازاروں اور فٹ پاتھوں پر کتابوں کی موجودگی ایک بہت بڑی ثقافتی تبدیلی ہے۔

مختلف کمپنیوں کے لوگو اور رنگین تصاویر سے ڈھکے اس چھوٹے سے لوڈر رکشہ کو ہفتے کے کسی بھی روز شہر کے مختلف علاقوں میں کھڑا دیکھا جاتا ہے۔ شہر کی سڑکوں پر دوڑنے اور بے ہنگم شور مچانے والی گاڑیوں کے درمیان یہ رکشہ منفرد لگتا ہے جسے دیکھ کر سڑک سے گزرنے والے لوگ تجسس میں مبتلا ہوکر اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔

اس چھوٹے اور خوبصورت سیٹ اپ نے لاہور کے اسموگ والے ماحول میں ایک مختلف رنگ شامل کردیا ہے۔ بزرگوں اور چائے کے اسٹالز اور پان کے کھوکوں پر کام کرنے والے کم عمر لڑکوں سمیت ہر عمر کے افراد حتیٰ کہ اشرافیہ کے اسکولز میں پڑھنے والے بچے بھی رکشہ لائبریری میں پیش کی جانے والی کتابوں سے مستفید ہورہے ہیں۔

اس کاوش سے پسماندہ علاقوں کے بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا ہورہا ہے—تصویر: فیس بُک
اس کاوش سے پسماندہ علاقوں کے بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا ہورہا ہے—تصویر: فیس بُک

بلاشبہ شروع شروع میں یہ تعداد انتہائی کم تھی لیکن اب اس چلتی پھرتی لائبریری کے لیے لوگوں میں جوش و خروش پایا جاتا ہے اور لوگ تیزی سے اس کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ کچھ صرف اس لائبریری کو دیکھنے آتے ہیں اور کچھ لوگ کتابیں لینے یا واپس کرنے آتے ہیں۔

رکشہ لائبریری کے عملے کی رکن بسمہ کہتی ہیں کہ ’ہم ان کتابوں کے لیے کوئی کرایہ وصول نہیں کرتے۔ لوگ کتاب لے کر جاتے ہیں اور پڑھ کر واپس بھی کردیتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کتابیں واپس نہیں کرتے‘۔

الف لیلیٰ بک بینک (اے ایل بی بی) کی سی ای او بصارت کاظم سمجھتی ہیں کہ یہ لوگوں کی تربیت کا معاملہ ہے۔ وہ کہتی ہیں ’ہمیں لوگوں بالخصوص بچوں کی بات پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس سفر میں ایک دو کتابیں گم بھی ہوجاتی ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ ایک طویل سفر ہے جس میں ہم اعتماد اور احساسِ ذمہ داری کو فروغ دے رہے ہیں۔ واپس نہ کی گئی وہی کتاب شاید اسی گھر کے کسی اور فرد کے لیے خواندگی کا ذریعہ بن جائے‘۔

اگرچہ فوری طور پر کوئی بھی جگہ منتخب کرنے کا آپشن موجود ہے لیکن ان موبائل لائبریریز کے لیے جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے مکمل تحقیق کی جاتی ہے تاکہ جن علاقوں میں یہ کھڑی ہوں وہاں وہ اپنی کتابوں کے ذریعے سماجی اخلاقیات کو تبدیل کرسکیں اور وہاں طلب اور رسد کے تصور کو پروان چڑھایا جاسکے۔

بچوں کی بڑی تعداد ان بک بس سے مستفید ہوتی ہے—تصویر: فیس بُک
بچوں کی بڑی تعداد ان بک بس سے مستفید ہوتی ہے—تصویر: فیس بُک

اس منفرد رجحان کا حصہ دیگر تنظیمیں بھی بن رہی ہیں۔ اے ایل بی بی اور ہوبی کلب ماڈل کو دیکھتے ہوئے چغتائی لیبز نے لائبریری آن ویلز جیسا منصوبہ شروع کیا ہے جوکہ 2 سال قبل شروع ہوا تھا اور اس سلسلے کی 3 گاڑیوں کو ہم مختلف دنوں میں چغتائی لیبز کے پارکنگ لاٹس میں کھڑا ہوا دیکھتے ہیں۔

یہ گاڑیاں شہر بھر میں واقع ان کی لیبز میں کھڑی ہوتی ہیں۔ پوش علاقوں اور ہربنس پورہ اور شاد باغ جیسے علاقوں میں موجود ان کی لیبز میں بھی یہ لائبریریاں کھڑی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی این جی او اخوت بھی چغتائی لیبز کے اس اقدام میں ان کی ایک فریق ہے۔ اے ایل بی بی کی جانب سے شروع کی جانے والی کاوش میں ادارہِ تعلیم و آگاہی کا کتاب گھر بھی اسی ڈگر پر چل پڑا ہے۔ ان سب اداروں نے اپنے لیے پارکنگ مقامات مختص کرلیے ہیں، ہر گاڑی ہفتے میں ایک دن ایک جگہ کھڑی ہوتی ہے تاکہ شہر کے تمام علاقوں میں موجود لوگ ان چلتی پھرتی لائبریریز کی خدمات سے مستفید ہوسکیں۔

تنگ گلیوں والے علاقے جہاں ان گاڑیوں کا پہنچنا مشکل ہے، ایسے مقامات کے لیے اے ایل بی بی نے سائیکل لائبریری کا بھی انتظام کیا ہے۔ الف لیلیٰ کے زیرِاہتمام سندھ اور بلوچستان میں موبائل لائبریریز کے لیے اونٹوں کی مدد بھی حاصل کی جارہی ہے۔ لائبریریز کے لیے محدود جگہ اور لوگوں میں کتب بینی کا شوق کم ہونے کے باوجود لاہور کی سڑکوں کے کنارے موجود یہ لائبریریز بنیادی تعلیم کے لیے ایک بہترین انتخاب ہیں۔

سندھ اور بلوچستان میں اونٹوں پر لائبریریز بنائی گئی ہیں—تصویر: فیس بُک
سندھ اور بلوچستان میں اونٹوں پر لائبریریز بنائی گئی ہیں—تصویر: فیس بُک

کتابوں، رسالوں سے لے کر ڈیجیٹل مواد تک، یہ نئی کاوش لاہور کے ثقافتی فلسفے میں انقلاب برپا کررہے ہیں۔

ملک کی سب سے بہترین لائبریریاں رکھنے کے باوجود لاہور کی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی خواندگی کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا ہے۔ خراب منصوبہ بندی یا شاید ڈیجیٹل کے رجحان سے لاہور کی لائبریریاں شہریوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کو خود ان کے پاس لے کر جانے کی ضرورت پیش آئی۔

تنگ گلیوں والے علاقوں میں الف لیلیٰ بک بس سوسائٹی کے زیرِاہتمام سائیکل لائبریری چلائی جاتی ہے—تصویر: فیس بُک
تنگ گلیوں والے علاقوں میں الف لیلیٰ بک بس سوسائٹی کے زیرِاہتمام سائیکل لائبریری چلائی جاتی ہے—تصویر: فیس بُک

40 سال قبل نیتا بیکر نے بالکل یہی تصور پیش کیا تھا۔ جب انہیں لاہور گلبرگ کی مرکزی مارکیٹ میں ایک بےکار ڈبل ڈیکر بس کھڑی کرنے کے لیے جگہ ملی تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس رجحان کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔ اور نہ سیدہ بصارت کاظم جب نیتا بیکر کے کام کو آگے لے کر چلیں، تب انہیں اندازہ تھا کہ یہ امر آگے چل کر ایک رجحان کی شکل اختیار کرلے گا۔

دونوں نے مل کر اپنے اس قدم کو الف لیلیٰ بک بس کا نام دیا۔ یہ ایک ایسی شاندار عجائب کی دنیا ہے جس کی کنجی کتابیں ہیں۔ اس منصوبے میں دل و جان لگانے والی بصارت کاظم کا ماننا ہے کہ معاشرے میں اعتماد کی کمی ہے پھر چاہے وہ بزرگ ہوں یا کم عمر بچے، ایسے منصوبوں سے ان میں اعتماد پیدا کیا جاسکتا ہے۔

اس سب کے لیے صرف پڑھنے کے مواد تک آسان رسائی کی ضرورت ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو لاہور میں نئے کلچر کو جنم دے رہی ہے۔


یہ مضمون 24 دسمبر 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں