تقریباً 40 ممالک میں جوکہ تقریباً دنیا کی نصف آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں رواں سال عام انتخابات کا انعقاد ہوگا جہاں یہ یا تو اپنے نئے حکمرانوں کا انتخاب کریں گے یا پھر اپنے موجودہ حکمرانوں کو برقرار رکھیں گے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم اسے جمہوریت کی عالمی کامیابی کے طور پر دیکھیں۔

سب سے پہلے بنگلہ دیش میں انتخابات کا انعقاد ہوا ہے جبکہ دنیا بھر میں شروع ہونے والے انتخابی سلسلے کا اختتام ممکنہ طور پر 5 نومبر کو سب سے زیادہ نتیجہ خیز انتخابات کے ساتھ ہوگا جہاں امریکی عوام حقِ رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کریں گے کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں واپس آتے ہیں یا نہیں۔

اس مدت کے دوران میکسیکو اور دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ بھارت، انڈونیشیا، پاکستان اور روس میں بھی پولنگ ہوگی۔ 2025ء تک برطانیہ میں انتخابات ہونے تو نہیں لیکن رشی سوناک کی اقتدار سے جلد بے دخلی کی توقع ہے کیونکہ ان کی پارٹی کے مستقبل کے امکانات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

اگرچہ بن یامین نیتن یاہو غزہ میں نسل کشی کی مہم میں توسیع کرسکتے ہیں تاکہ مایوس ووٹرز نیتن یاہو کی فاشسٹ حکومت کی لاتعداد ناکامیوں کا حساب نہ لے سکیں لیکن اسرائیلی جارحیت میں توسیع ایسے حالات کو بھڑکا سکتی ہے جن میں انتخابات کی ضرورت ہو۔

اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں خونریزی کے اثرات امریکی انتخابات پر بھی مرتب ہوں گے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ نوجوان امریکی بشمول یہودی مایوس ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں سیکڑوں شہریوں کی خونریزی کرنے والے عناصر کو امداد فراہم کی جارہی ہے جبکہ اس قتلِ عام میں زیادہ تر بچے اور خواتین نشانہ بن رہے ہیں، یوں ہر روز وہ بائیڈن کو دوبارہ منتخب کرنے کے اپنے فیصلے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوتے ہیں۔

دوسری جانب صیہونی حمایت یافتہ لابی اور ان کے ساتھی، کانگریس کے اُن چند ارکان کو شکست دینے کے لیے پُرعزم ہیں جنہوں نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بات کرنے کی جرات کی یا جو اسرائیل کے جنگی جرائم کے ارتکاب میں امریکی سہولت کاری پر سوال اٹھاتے ہیں۔ البتہ اس ضمن میں گزشتہ کوششوں کی کامیابی کی شرح انتہائی کم رہی ہے لیکن اس کے باوجود یہ رجحان ایک ایسے ملک میں تشویش کا باعث ہے جہاں انتخابی مقابلوں میں اکثر پیسے کا راج ہوتا ہے۔

اس سے آگے جائیں تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ قانونی یا آئینی چیلنجز ٹرمپ کے لیے دوسری دفعہ صدر بننے کی کوشش کو ناکام بنا دیں گے۔ کیا وائٹ ہاؤس میں ان کی واپسی جادو کا کام کرے گی جیسا کہ امریکی میڈیا کے کچھ حلقے تاثر پیش کرتے ہیں؟ شاید ایسا ہو۔ دنیا کی خوفناک صورتحال، اسٹیٹس کو پر اکسانے کا کام کرے گی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت مزید پریشان کن امکانات پیدا کرسکتا ہے۔

تاہم امکانات یہی ہیں کہ ناپسندیدہ واقعات رونما ہوں گے۔ برصغیر کی بات کی جائے تو یہاں جبر ایک عام عنصر بنتا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ (ایسا لگتا ہے کہ حسینہ واجد نے اس جبر کا انتخاب کرنے کے بعد اپنے والد کے حالات کو بھلا دیا ہے)، پاکستان میں مقتدر حلقے اور بھارت میں مودی حکومت ایک بار پھر ممکنہ طور پر دوبارہ اقتدار سنبھالیں گی۔

مختلف وجوہات کی بنا پر تینوں کے کامیاب ہونے کا امکان ہے۔ پرابوو سوبیانتو کا انڈونیشیا کے اگلے صدر بننے کا امکان ہے جوکہ سہارتو دور کے جنرل ہیں جن کے مظالم کی وجہ سے ان پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ جیت جاتے ہیں تو یہ پابندی ہٹا دی جائے گا بالکل ویسے ہی جیسا کہ نریندر مودی کے معاملے میں ہوا تھا۔

جنوبی افریقہ میں افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) جو نیلسن منڈیلا کے ساتھ انمٹ طور پر وابستہ ہیں لیکن ان کے نظریات کی درست عکاسی نہیں کرتی، برسوں کی ناقص حکمرانی اور بدعنوانی کے بعد اپنی اکثریت سے محروم ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود اے این سی نے فلسطینیوں کی آزادی کے مقصد کی مسلسل حمایت کی ہے اور اس کی حکومت بین الاقوامی عدالت میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف مقدمہ لےجانے پر تعریف کی بھی مستحق ہے۔

یورپ میں انتخابی رجحان وسیع طور پر دائیں اور انتہائی دائیں بازو کی جانب ہے۔ اس کی جزوی طور پر یہ وجہ بھی ہے کہ بائیں بازو کا اثر ختم ہورہا ہے۔ لاطینی امریکا بائیں یا دائیں کا واضح انتخاب پیش کرتا ہے۔ جیت جس کی بھی ہو، میکسیکو میں اس سال پہلی خاتون صدر آنے والی ہیں۔ روس میں ولادیمیر پیوٹن کے تمام ممکنہ متبادل کو قید یا جلاوطن کر دیا گیا ہے، پھر بھی قانونی حیثیت فراہم کرنے کے لیے ایک جعلی انتخابی مشق کو ضروری سمجھا جارہا ہے۔ جنگ زدہ یوکرین اس سال ہونے والے انتخابات سے اثر انداز نہیں ہوگا۔ اگر اس نے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہوتا تو یوکرین کو بہت زیادہ حمایت حاصل ہوتی لیکن ولادیمیر زیلنسکی نے یہ کام پیوٹن پر چھوڑ دیا۔

مبینہ طور پر چینی مداخلت کی وجہ سے تائیوان میں اگلے ہفتے ہونے والے صدارتی انتخابات نہ صرف تائیوان بلکہ اس خطے کی قسمت کا تعین کرسکتے ہیں۔ اس کی بنیاد اس بات پر ہوگی کہ جیتنے والے کا چین کے حوالے سے کیسا رویہ ہوتا ہے۔

کسی بھی انتخابی نتیجے سے کرہ ارض کو موسمیاتی تباہی سے پچانے کا امکان نہیں ہے۔ جبکہ تعیشات اور امارت کے ساتھ دنیا میں شدید غربت، بھوک اور بے گھری بھی موجود ہے۔ دائیں بازو کی قوتیں بھی یہی کچھ پیش کرسکتی ہیں جبکہ دنیا کے بیشتر حصوں میں بائیں بازو کی قوتیں یا تو ختم ہوچکی ہیں یا پھر بہت کم ہیں۔ آپ کو نیا سال مبارک ہو، لیکن کیا یہ سال واقعی مبارک ہوگا؟


یہ مضمون 3 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں