سپریم کورٹ: پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2024
17 دسمبر کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کی سزا سنائی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی
17 دسمبر کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کی سزا سنائی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے خصوصی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو خصوصی عدالت سے ہونے والی سزا درست قرار دی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 4 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کوشش کے باوجود مشرف کے قانونی ورثا سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

سماعت کے دوران وکیل حامد خان اور وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آئے، وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے جو کرمنل اپیل ہے جبکہ ہماری درخواست لاہور ہائی کورٹ کے سزا کالعدم کرنے کے فیصلے کے خلاف ہے جو آئینی معاملہ ہے، انہوں نے استدعا کی کہ دونوں اپیلوں کو الگ الگ کر کے سنا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار اور اپیل دو الگ معاملات ہیں، پہلے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو سن لیتے ہیں۔

بعد ازاں وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل کی مخالفت کر دی۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن سے استفسار کیا کہ آپ پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں یا حمایت؟

ایڈیشنل اٹارنی نے جواب دیا کہ ہم پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ ہم شاید آج ہی اس کیس کا فیصلہ سنا دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پرویز مشرف کے ورثا کی عدم موجودگی میں تو ان کے وکیل کو نہیں سن سکتے، مفروضوں کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہونے چاہیے، ورثا کے حق کے لیے کوئی دروازہ بند نہیں کرنا چاہتے، عدالت 561 اے کا سہارا کیسے لے سکتی ہے؟

پرویز مشرف کے وکیل سلمان سفدر نے کہا کہ اس عدالت کے اٹھائے اقدام کو سراہتا ہوں، پرویز مشرف کے ورثا پاکستان میں مقیم نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کے لاہور ہائی کورٹ کے بارے میں کیا تحفظات ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ میں لاہور ہائی کورٹ میں سابق صدر کا ٹرائل کرنے والے جج کے سامنے سپریم کورٹ میں بھی پیش نہیں ہوتا، اس بارے میں آپ کے چیمبر میں کچھ گزارشات ضرور کروں گا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم کسی کو چیمبر میں نہیں بلاتے ہیں،۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 12 کے تحت پرویز مشرف کے ساتھ ملوث تمام افراد کے خلاف عدالتی دروازے کھلے ہیں۔

’ایمرجنسی کے نفاذ میں پرویز مشرف تنہا ملوث نہیں تھے‘

وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں پرویز مشرف تنہا ملوث نہیں تھے، اس وقت کے وزیراعظم، وزیر قانون، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے ججز بھی ملوث تھے، پرویز مشرف کو سنے بغیر خصوصی عدالت نے سزا دی، ایک شخص کو پورے ملک کے ساتھ ہوئے اقدام سے الگ کر کے سزا دی گئی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت میں پانچ منٹ کا وقفہ دے دیا۔

سماعت کے دوبارہ آغاز کے بعد سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی اپیل کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے سزا کے فیصلہ کو برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔

’فوجداری کیس ملزم کی غیر موجودگی میں نہیں چل سکتا‘

سماعت کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے ورثا کے وکیل سلمان صفدر نے میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کی اپیل 4 سال عدالت پڑی رہی، کوئی بھی فوجداری کیس ملزم کی غیر موجودگی میں نہیں چل سکتا، پرویز مشرف کی اپیل ان کی زندگی میں کبھی نہیں سنی گئی، پرویز مشرف نے نہ سنگین غداری کی نہ اس کے مرتکب ہوئے۔

سنگین غداری کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 17 دسمبر 2019 میں اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت انہیں سزائے موت دینے کا حکم دے دیا تھا۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین توڑنے پر کسی سابق فوجی سربراہ یا سابق صدر کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔

خیال رہے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 3 نومبر، 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کردیا تھا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے تھے۔

اس دوران ملک کے تمام نجی چینلز کو بند کردیا گیا تھا اور صرف سرکاری نشریاتی ادارے ’پی ٹی وی‘ پر ایمرجنسی کے احکامات نشر کیے گئے جس میں ’انتہا پسندوں کی سرگرمیوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کو‘ ایمرجنسی کی وجہ بتایا گیا تھا۔

بعد ازاں 2013 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو اسی سال 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو استغاثہ ٹیم کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔

بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

20 جون 2018 کو مشرف نے کہا تھا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن سپریم کورٹ کے حکام کو انہیں گرفتار کرنے کے احکامات کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے، جس کے بعد 30 جولائی 2018 کو سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس کے بعد اگست میں پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی وجہ سے رکنے والے ٹرائل کو 20 اگست سے دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم ان کو خطرات لاحق ہونے کا حوالہ دے کر مشرف نے غداری کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے صدارتی سیکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

2 اکتوبر 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو ’بہادر کمانڈو‘ کہنے والے مشرف کے واپس نہ آنے پر ان کے وکیل کی سرزنش کی تھی، جس کے بعد نومبر 2018 میں خصوصی عدالت نے مشرف کو حکم دیا تھا کہ وہ غداری کیس میں 2 مئی 2019 کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہو ورنہ وہ اپنے دفاع کا حق کھو دیں گے۔

یکم اپریل 2019 کو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خصوصی عدالت کے لیے حکم جاری کیا تھا کہ پرویز مشرف اگر مقررہ تاریخ تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کراتے تو وہ غداری کیس کو ان کے بیان کے بغیر ہی آگے بڑھائے۔

جون 2019 میں سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا جس کے بعد جولائی 2019 میں غداری کیس میں پروسیکیوشن سربراہ نے استعفیٰ دیا۔

اکتوبر میں خصوصی عدالت نے 24 اکتوبر سے غداری کیس کی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ کیا، 19 نومبر کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے اپنی سماعت مکمل کرلی اور کہا کہ فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔

تاہم اس فیصلے کے سنانے سے قبل ہی پرویز مشرف نے اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جبکہ وزارت داخلہ کی جانب سے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلہ روکنے کے لیے درخواست دائر کردی گئی۔

وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کی درخواست پر 27 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔

بعدازاں 28 نومبر کو سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو 5 دسمبر تک اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی روزانہ بنیادوں پر سماعت کا فیصلہ کیا۔

5 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں استغاثہ کو 17 دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس تاریخ کو دلائل سن کر فیصلہ سنا دیں گے اور 17 دسمبر کو کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔

یاد رہے کہ مرحوم پرویز مشرف نے اپنے وکیل سلمان صفدر کے توسط سے سپریم کورٹ میں سزا کے خلاف دائر اپیل میں استدعا کی تھی کہ سزا کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ ان کے خلاف مقدمہ مکمل طور پر آئین اور ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) 1898 کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے بنایا گیا، اس سزا کو معطل کیا جانا انصاف اور منصفانہ عمل کے مفاد میں ہے۔

اپیل میں کہا گیا کہ سابق صدر کے خلاف مکمل طور پر غیر آئینی طریقے سے آئین کے خلاف جرم کے ارتکاب کا مقدمہ چلایا گیا۔

سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف5 فروری 2023 کو وفات پاچکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں