ملک کی 2 بڑی سیاسی جماعتیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد کے منفی تاثر سے پریشان دونوں فریق بہت محتاط انداز اپناتے ہوئے بات چیت کر رہے ہیں کہ حکومت سازی کا معاہدہ کیسے طے پائے گا۔

لاہور اور اسلام آباد میں آج کا دن مصروف ہوگا کیونکہ رہنما پیپلزپارٹی آصف علی زرداری آج اپنے ممکنہ اتحاد کے حوالے سے بات چیت کرنے کے لیے اہم ملاقاتیں کریں گے، بتایا جارہا ہے کہ سیاسی طور پر راغب کرنے کے لیے صدرِ مملکت کے عہدے کی بھی پیشکش کی جارہی ہے۔

دریں اثنا متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کا وفد مسلم لیگ (ن) کی دعوت پر الیکشن کے بعد کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کے لیے لاہور پہنچ چکا ہے۔

انتخابات کے ایک دن بعد سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے اپنے بھائی، سابق وزیر اعظم شہباز شریف کو حکومت سازی پر مشاورت شروع کرنے کے لیے دیگر جماعتوں سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری سونپنے سے پہلے پی ڈی ایم اتحاد کی طرز پر قومی حکومت بنانے کا عندیہ دیا تھا۔

ذرائع مسلم لیگ (ن) نے بتایا کہ پارٹی قیادت نے گزشتہ روز وفاقی حکومت بنانے کے لیے پیپلزپارٹی کی حمایت کی تجویز پر بھی تبادلہ خیال کیا، پارٹی کی توجہ پنجاب پر مرکوز ہے جہاں مریم نواز نہیں بلکہ شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے کی خواہاں پارٹی کو مطلوبہ اکثریت حاصل ہے۔

لیکن اس بار فیصلے میں جلدی نہیں کی جائے گی، جیسا کہ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت کی گئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف اور آصف زرداری نے ابتدائی مشاورت کی ہے تاہم مخلوط حکومت کے قیام کے حوالے سے دونوں اپنی اپنی جماعتوں سے مشاورت کریں گے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ کیا مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی یا اس کے حمایت یافتہ امیدواروں سے بات کرے گی؟ جواب میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں سے بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

وفاق میں مجوزہ اتحادی حکومت میں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے بھی شہباز شریف کو فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اتحاد کے حوالے سے کافی بحث جاری ہے، وزیراعظم اور صدر کون ہوگا اور بلوچستان میں وزیراعلیٰ کس پارٹی کے پاس ہوگا وغیرہ وغیرہ، یہ تمام معاملات کافی بحث طلب ہیں۔

دریں اثنا شہباز شریف نے ماڈل ٹاؤن میں پارٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں سے پاکستان کی خاطر متحد ہونے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے، نئی حکومت کا مقصد عوام کو معاشی ریلیف فراہم کرنا ہوگا۔

اجلاس کے شرکا کو مرکز میں حکومت سازی کے حوالے سے دیگر جماعتوں سے مسلم لیگ (ن) کے رابطوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا، اجلاس میں اسلام آباد اور لاہور میں حکومتیں بنانے کے حوالے سے مختلف آپشنز پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر کوئی حکومت نہیں بناسکتا، بلاول بھٹو

ایک جانب مسلم لیگ (ن) بھرپور انداز میں سرگرم ہے، وہیں پیپلز پارٹی کے رہنما فی الحال اپنے کارڈز کھُل کر ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔

پارٹی رہنماؤں نے گزشتہ روز بتایا کہ وہ یہ تاثر قائم ہونے پر حیران ہوئے کہ پیپلزپارٹی مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، حالانکہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے، تاحال اس حوالے سے اب تک پارٹی کے اندر بھی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔

پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ ہم نے مستقبل کی شراکت داری یا مرکز میں مخلوط حکومت کے حوالے سے تاحال کوئی گفتگو نہیں کی۔

بلاول بھٹو سے ان میڈیا رپورٹس کے بارے میں پوچھا گیا جن کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ طے پایا جا چکا ہے، تاہم بلاول بھٹو نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ابھی بھی انتخابات کے نتائج اور ابھرتی ہوئی سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے کے عمل میں ہیں، انتخابی نتائج کی حتمی شکل سامنے آنے کے بعد پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (جس نے مجھے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا ہے) دوبارہ بیٹھ کر لائحہ عمل وضع کرے گی۔

قبل ازیں ’جیو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی واحد جماعت ہے جس کی چاروں صوبوں میں نمائندگی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ابھی تک مکمل نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، ہم ابھی تک آزاد امیدواروں کے فیصلوں سے آگاہ نہیں ہیں، مرکز اور صوبوں میں حکومت کون بنائے گا یہ پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے، میں آپ کو اتنا بتا سکتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر مرکز پنجاب یا بلوچستان میں کوئی بھی حکومت نہیں بنا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی یا کسی دوسری جماعت کے ساتھ باضابطہ طور پر کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی کی توجہ مرکز، بلوچستان اور پنجاب میں حکومت بنانے پر ہے کیونکہ سندھ میں تو پیپلزپارٹی کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے، بلوچستان میں ہم سب کو مخلوط حکومت بنانا ہو گی، مخلوط حکومت سیاسی استحکام لائے گی۔

نواز شریف کی ایک روز قبل کی قبل از وقت ’وکٹری اسپیچ‘ پر تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ نواز شریف نے اپنی تقریر عجلت میں کی، انہیں بھی ہماری طرح حتمی نتائج کا انتظار کرنا چاہیے تھا لیکن یہ بہرحال ان کا اور ان کی پارٹی کا حق ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں