امریکی ریاست نیویارک کی عدالت کے جج نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر 35 کروڑ ڈالر سے زائد جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ ساتھ تین سال تک ریاست میں کمپنیاں چلانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق رواں سال نومبر میں ہونے والے انتخابات کے لیے ممکنہ ریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے بینکوں سے موثر قرضے یا انشورنس شرائط کے حصول کے لیے اپنی مجموعی دولت اصل سے زیادہ ظاہر کرتے رہے۔

کیونکہ یہ ایک سول کیس ہے تو اس لیے اس مقدمے میں ٹرمپ کو جیل کی سزا ہونے کا امکان نہیں تاہم اس مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل سابق امریکی صدر نے کہا تھا کہ ریاست نیویارک میں کاروبار کرنے پر پابندی دراصل کارپوریٹ سزائے موت کے برابر ہے۔

اس کے علاوہ مزید 91 مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ مقدمات مجھے انتخابات میں نقصان پہنچانے کی کوشش ہیں اور آج کے مقدمے کے حوالے سے جج آرتھر انگورون کا حکم میری ذاتی دولت اور مستقبل میں کمائی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے وکیل نے صحت جرم سے انکار کردیا اور سابق امریکی صدر نے اپنے کام کو معمول کے مطابق جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔

جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس ٹرائل کے دوران جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ یہ مانتے ہیں کہ انہیں ٹرمپ آرگنائزیشن میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔

جج کے اس فیصلے کو ریاست نیویارک کی اٹارنی لٹیٹیا جیمز کے خلاف فتح تصور کیا جا رہا ہے جنہوں نے ٹرمپ کے کاروبار کرنے پر پابندی کے ساتھ ساتھ 37کروڑ ڈالر عائد کرنے کی استدعا کی تھی تاکہ اس رقم کی تلافی ہو سکے جو انہوں نے ’دھوکادہی‘ سے حاصل کی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل کرس کائس نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کے کسی قسم کے واضح ثبوت میسر نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ارادتاً ایسا کیا۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ سابق صدر کے مالیاتی گوشواروں میں کچھ غلطیاں ضرور ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے فراڈ کیا ہے۔

ٹرمپ کے وکیل ان کی جیارجیا میں بھی نمائندگی کررہے ہیں جہاں کی عدالت میں ان کے خلاف 2020 کے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا ہے جبکہ یہ معاملے کا مقدمہ واشنگٹن ڈی سی میں بھی زیر سماعت ہے اور اس مقدمے کا فیصلہ زیر التوا ہے کیونکہ سابق صدر ہونے کے ناطے اس مقدمے میں ٹرمپ نے استثنیٰ مانگا ہے۔

اس مقدمے میں سزا سے ایک ماہ قبل ہی نیویارک کی ہی عدالت نے ٹرمپ کو 8کروڑ ڈالر سے زائد جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی تھی جہاں سابق صدر پر مصنف ای جین کیرل کو جنسی ہراساں اور ان کی تضحیک کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

ایک عرصے سے جاری مقدمات اور عدالتی کارروائیاں ٹرمپ کے لیے درد سر بنتے جا رہے ہیں کیونکہ صرف 2023 میں انہوں نے قانونی فیسوں کی مد میں 5کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم ادا کی تھی۔

اس کے علاوہ ان مقدمات کے ان کی رواں سال انتخابی مہم پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں