پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان اگلی حکومت کے لیے پاور شیئرنگ پر اتفاق کے ایک روز بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے وفد نے (ن) لیگ کے ساتھ ملاقات کرکے وفاقی کابینہ میں تین سے چار وزارتوں کو مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم نے ڈپٹی اسپیکر نیشنل اسمبلی کا عہدہ لینا چاہتی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) پہلے ہی وہ پیپلزپارٹی کو دے چکی ہے، اب ایم کیو ایم وفاقی کابینہ میں 4 وزارتوں کے لیے اصرار کر رہی ہے کیونکہ جماعت کو ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ نہیں مل سکتا۔

وفاقی کابینہ میں وزارتوں کے علاوہ ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے کہ قانون سازی کرکے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنایا جائے، جس کی جانب سے اختیارات کی منتقلی کا طویل عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

ایم کیو ایم پنجاب کے رہنما محمد زاہد نے ڈان کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) نے موجودہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو برقرار رکھنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

کامران ٹیسوری کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان کے وفد میں فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال شامل تھے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی اسحٰق ڈار اور ایاز صادق کر رہے تھے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کی (ن) لیگ سے ملاقات

دوسری جانب، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مذاکرات ہوئے، جس میں ممکنہ طور پر پیپلزپارٹی کے سرفراز بگٹی کی قیادت میں صوبائی حکومت کی تشکیل کا منصوبہ زیر بحث آیا۔

میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ اسحٰق ڈار نے جے یو آئی (ف) کے رہنما عبدالغفور حیدری کو کہا کہ بلوچستان میں اقتدار کے حوالے سے پاور شیئرنگ کے لیے جے یو آئی (ف) کافی دیر سے (ن) لیگ کے پاس آئی ہے۔

اسحٰق ڈار نے جے یو آئی (ف) کے رہنما کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) پہلے ہی بلوچستان حکومت کی تشکیل پر پیپلزپارٹی کے ساتھ منصوبہ بنا چکی ہے۔

تاہم ان رپوٹس کی مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے تردید کی ہے، ایک بیان میں (ن) لیگ کی سیکریٹری اطلاعات نے بتایا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان بدھ کو مذاکرات ہوئے اور اس کا باضابطہ بیان بھی جاری کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس کے شرکا نے فیصلہ کیا کہ بلوچستان کو درپیش چیلنجز صوبے میں ’مضبوط جمہوری حکومت‘ کا مطالبہ کرتے ہیں، مزید کہا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ ملک کے مفاد میں ہے کہ بلوچستان میں مختلف سیاسی قوتیں مل کر بیٹھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں