اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تضحیک کے کیس میں گرفتار صحافی اسد طور کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا ہے۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے گرفتار اسد طور کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں پیش کیا۔

جوڈیشنل مجسٹریٹ محمد شبیر نے کیس کی سماعت کی، ایف آئی اے نے اسد طور کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

جوڈیشل مجسٹریٹ محمد شبیر نے فیصلہ سناتے ہوئے اسد طور کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

قبل ازیں ایف آئی اے نے اسد طور کو انتخابات سے قبل تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ’بلے‘ کے نشان سے محروم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اعلی عدلیہ کے خلاف ’بد نیتی پر مبنی مہم‘ کے الزامات کے تحت گزشتہ روز گرفتار کرلیا تھا۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن اور اسد طور کی وکیل ایمان زینب مزاری حاضر نے ’ڈان ڈاٹ کام‘ سے بات کرتے ہوئے اسد طور کی گرفتاری کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا کہ اسد طور ہفتے کو جاری کیے گئے نوٹس کا جواب دینے اور عدلیہ کے خلاف مہم کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے گزشتہ روز اسلام آباد میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر پہنچے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قانونی ٹیم اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم نامہ حاصل کرنے کے بعد ایف آئی اے کے دفتر گئی جس میں ایف آئی اے کو ہدایت کی گئی تھی کہ اسد طور کو ہراساں نہ کیا جائے لیکن اس کے باوجود انہیں قانونی ٹیم کے بغیر ایف آئی اے کے احاطے میں لے جایا گیا۔

’ایکس‘ پر رات 9 بج کر 5 منٹ پر پوسٹ کی گئی ایک اپ ڈیٹ میں ایمان مزاری حاضر نے کہا کہ اسد طور کو ایف آئی اے نے گرفتار کیا ہے۔

’ڈان ڈاٹ کام‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کا ایک اہلکار عمارت سے باہر آیا اور لیگل ٹیم کو اسد طور کا ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ پہنچایا اور کہا کہ اسد طور کو باقاعدہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

’ڈان ڈاٹ کام‘ کو دستیاب مذکورہ نوٹ میں اسد طور کی جانب سے ان کے اہل خانہ کے لیے مختلف ہدایات درج تھیں۔

ایمان مزاری نے اسد طور کی گرفتاری کا ذمہ دار ہائی کورٹ کی جانب سے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کو ٹھہرایا۔

اس سے قبل ایک پوسٹ میں ایمان مزاری نے کہا تھا کہ اسد طور کو گزشتہ کئی گھنٹوں سے ایف آئی اے کے سیل میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اس ملک میں صحافیوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے وہ افسوسناک ہے، عدالتوں کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ بنیادی حقوق کی اس طرح کھلے عام خلاف ورزی نہ ہو۔

اسد طور کی گرفتاری سے قبل اسی کیس کے سلسلے میں ایف آئی اے حکام کی جانب سے جمعہ کو تقریباً 8 گھنٹے تک اسد طور سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

اسد طور کے وکیل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا تھا کہ اسد طور اور ان کی لیگل ٹیم صبح 10 بج کر 50 منٹ سے ایف آئی اے کی تحویل میں رہنے کے بعد اسی روز شام 7 بجے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ ہیڈ کوارٹر سے نکلے۔

بعد میں اسد طور نے اپنی لیگل ٹیم اور اپنے حامیوں کا پورے واقعے میں اپنی مدد اور یکجہتی کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایک ’مشکل وقت‘ کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ پوچھ گچھ ایسے وقت میں ہوئی جب اٹارنی جنرل آف پاکستان نے گزشتہ ماہ ہی سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایف آئی اے صحافیوں کو بھیجے گئے نوٹسز پر عام انتخابات سے قبل کارروائی نہیں کرے گی، عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی تھی۔

’آزادی صحافت پر حملہ‘

اسد طور کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے سینیئر صحافی حامد میر نے کہا کہ ایف آئی اے نے اسد طور کو پہلے بھی گرفتار کیا تھا لیکن وہ اس کے خلاف کچھ ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے، اس بار وہ نئی حکومت کے تحت نئے الزامات کے ساتھ کچھ پرانے حساب برابر کرنے کی کوشش کریں گے۔

ڈیجیٹل حقوق کے لیے درگرم سماجی کارکن اسامہ خلجی نے کہا کہ پاکستان میں آزادی صحافت پر حملہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، صحافیوں کو محض رپورٹنگ کرنے، تنقیدی سوالات کرنے اور بااختیار حلقوں کے سامنے سچ بولنے پر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔

صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ یہ گرفتاری انتہائی قابل مذمت ہے، یہ صحافی برادری کے لیے ایک یاددہانی ہے کہ ہائبرڈ نظامِ حکومت میں انتخابات سے کچھ بھی نہیں بدلتا۔

تبصرے (0) بند ہیں