غزہ میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات، امریکا نے فضا سے امداد گرانا شروع کردیں

03 مارچ 2024
غزہ میں امداد گرانے کے آپریشن کو امریکا نے اردن کی مدد سے انجام دیا— فوٹو: اے ایف پی
غزہ میں امداد گرانے کے آپریشن کو امریکا نے اردن کی مدد سے انجام دیا— فوٹو: اے ایف پی

غزہ میں غذائی قلت سے ایک درجن سے زائد بچوں کی اموات کے بعد امریکا نے فضا سے امداد گرانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی ریلیف آپریشن کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر جو بائیڈن نے چند گھنٹے قبل ہی غزہ میں فضا سے امداد گرانے کا اعلان کیا تھا اور اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ کے عوام کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے مزید امداد کی فراہمی کی اجازت دے۔

تقریباً پانچ ماہ سے جاری اس جنگ میں اب تک 30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی اور لاپتا ہو چکے ہیں اور اسرائیل اور حماس کے درمیان اس جنگ کو روکنے کے لیے مذاکراتی عمل بھی جاری ہے۔

امریکی فوجی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ہم نے غزہ میں انسانی بنیاد پر فضا سے امداد گرانے کے عمل کا آغاز کیا جس میں امریکی فضائیہ کے تین سی۔130 طیاروں نے حصہ لیا تاکہ اس تنازع سے متاثرہ شہریوں کو کچھ ریلیف مہیا کیا جا سکے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ آپریشن اردن کی مدد سے انجام دیا گیا جس میں طیاروں نے غزہ کی ساحلی پٹی کے قریب 38ہزار سے زائد کھانے کے پیکٹ گرائے۔

اس سلسلے میں اردن نے سب سے پہلے گزشتہ سال نومبر میں فضا سے امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد سے کئی مشنز یہ کام انجام دے چکے ہیں جہاں اس امدادی کارروائی میں اسے برطانیہ، فرانس اور نیدرلینڈز سمیت کچھ یورپی ممالک کا تعاون حاصل رہا جبکہ مصر اور متحدہ عرب امارات نے بھی فضا سے امداد پھینکنے پر مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔

اے ایف پی ٹی وی کی تصاویر میں غزہ میں لوگوں کو پیدل اور سائیکل پر سوار اندھا دھند امدادی سامان تک پہنچنے کے لیے سرگرداں دیکھا جا سکتاہے۔

غزہ سٹی کے علاقے زیتون سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ ہشام ابو عید نے بتایا کہ انہیں امدادی سامان میں آٹے کے دو تھیلے ملے جس میں سے ایک انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ہر کوئی قحط کا شکار ہے، غزہ کو ملنے والی امداد نایاب ہے اور یہ یہاں کے لوگوں کے لیے ناکافی ہے، یہ قحط لوگوں کو مار رہا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غذائی قلت اور پانی کی کمی کی وجہ سے اب تک کم از کم 13 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔

امریکا کی جانب سے فضا سے امداد گرائے جانے سے چند دن قبل ہی اسرائیل نے بربریت کی نئی مثال رقم کرتے ہوئے امداد کے حصول کے لیے امدادی ٹرکوں کے قریب جمع عوام پر اندھادھند فائرنگ کی تھی جس سے 100 سے زائد افراد شہید ہو گئے تھے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس واقعے میں کم از کم 116 افراد شہید اور 750 سے زائد زخمی ہو گئے تھے جہاں اس واقعے کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ خوراک کی اشیا تک رسائی کی کوشش کرنے والے شہریوں پر فائرنگ بلاجواز ہے اور اس المناک واقعے کی غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ زیادہ انسانی امداد غزہ تک پہنچانا اسرائیل کی ذمہ داری ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کے ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایک ٹیم نے جمعہ کے روز غزہ سٹی کے الشفا ہسپتال میں امدادی واقعے میں زخمی ہونے والوں میں سے کچھ کی عیادت کی اور بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو دیکھا جن کو گولیاں لگی تھیں۔

ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ ٹیم کے دورے کے دوران ہسپتال میں واقعے میں جاں بحق 70 افراد اور 200 کے قریب زخمی موجود تھے۔ غزہ شہر کے کمال عدوان ہسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ نے بتایا کہ ہسپتال میں لائے جانے والے تمام افراد گولیاں لگنے سے شہید ہوئے۔

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر او سی ایچ اے کے ترجمان جینز لارک نے جمعہ کو کہا کہ حالات تبدیل نہ ہوئے تو غزہ میں قحط تقریباً ناگزیر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں