کراچی کی مقامی عدالت نے نارتھ ناظم آباد (بلاک ایچ) سے پر اسرار طور پر لاپتا ہوکر بازیاب ہونے والے 2 کم عمر بہن بھائی کو دوسری خالہ کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق دونوں کم سن بچوں کو جوڈیشل مجسٹریٹ وسطی کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان دونوں کا بیان قلم بند کیا گیا۔

والد کی جانب سے زاہد حسین سومرو ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، مدعی مقدمہ بچوں کے ماموں تھے جن کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے، علاوہ ازیں بچوں کے والد و دیگر رشتے دار بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

کیس کے تفتیشی افسر نے بچوں کے بیانات قلم بند کرنے کی درخواست دائر کی۔

بچوں کے والد کے وکیل نے کہا کہ بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا رہا ہے، بچوں نے تشدد سے تنگ آکر یہ قدم اٹھایا ہے، بچوں کے گھر چھوڑ کر جانے کی وجہ سے بات صاف ہے کہ وہ نانی کے گھر میں نہیں رہنا چاہتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2 برس سے بچوں کی والد سے ملاقات نہیں کرائی جارہی ہے، 3 سال سے اسکول بند کیا ہوا ہے، خالہ اور ماموں کو گرفتار کرکے کڑی سے کڑی سزا دی جائے، ایسے لوگ معاشرے پر دھبہ بن چکے ہیں۔

مدعی مقدمہ (ماموں) کے وکیل نے کہا کہ بچے اغوا ہوئے تھے، 2 سال تک باپ کا اتا پتا نہیں تھا، بچوں کے والد کو تو ان کی فکر بالکل بھی نہیں تھی، نہ اتنے برسوں سے کوئی خرچہ دیا گیا۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ بچوں نے بتایا ہے کہ ظلم و ستم، مار پیٹ ہوتی تھی، اسکول بھی چھڑا دیا تھا، گھر سے نکلے، گاڑی والے کو کہا ہمیں ایدھی ہوم پہنچادو، گاڑی والے اچھے لوگ تھے بچوں کو گھر لے کھانا کھلایا، صبح والدہ کو کال کرکے کہا کہ بچوں کو پری مال چھوڑ رہے ہیں، آکر لے لیں۔

’مار پیٹ کی وجہ سے چلے گئے تھے، کسی نے اغوا نہیں کیا‘

جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ پہلے ہم بچوں کا بیان قلم بند کریں گے، پہلے بچوں کے بیانات ریکارڈ ہوں گے اس کے بعد دیگر درخواستوں پر سماعت ہوگی۔

عدالت نے چیمبر میں دونوں بچوں کے بیانات ضابطہ فوجداری کی سیکشن 164 کے تحت ریکارڈ کرنا شروع کردیے۔

بچوں نے عدالت میں بیان دیا کہ مار پیٹ کی وجہ سے گھر سے چلے گئے تھے، ہمیں کسی نے اغوا نہیں کیا، ہم اپنی مرضی سے گئے تھے، ہم اپنی خالہ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، جس خالہ کے ساتھ اب رہتے تھے اُن کے ساتھ نہیں رہنا ہے۔

دریں اثنا جوڈیشل مجسٹریٹ وسطی نے دونوں بہن بھائی کا ضابطہ فوجداری کی سیکشن 164 کے تحت بیان قلم بند کرلیا۔

دریں اثنا عدالت نے بچوں کی کسٹڈی سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ بچوں کی کسٹڈی سے متعلق فیصلہ کچھ دیر بعد سنایا جائے گا۔

بعدازاں عدالت نے بچوں کو دوسری خالہ (سونیا) کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے خالہ کو 5، 5 لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا اور بچوں کے والد کو کسٹڈی کے حوالے سے باقاعدہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔

تحریری حکم

بعد ازاں جوڈیشل مجسٹریٹ وسطی نے نارتھ ناظم سے بہن بھائی کے مبینہ اغوا کے کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

فیصلے میں عدالت نے دونوں بچوں اور خالہ فرحین عرف سونیا کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔

تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فرحین عرف سونیا بچوں کو متعلقہ تھانے کی حدود سے باہر نہیں لے جاسکتی ہے، ایس ایس پی سینٹرل کسی افسر کو فوری تعینات کریں جو فرحین عرف سونیا کے گھر کا پتا کرے، جبکہ پولیس افسر یقینی بنائیں کے بچوں کی کسٹڈی متعلقہ تھانے کی حدود سے باہر نہ جائے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ پولیس افسر ہر ہفتے رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، بچوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرایا جائے اور انہیں صرف اس مقصد کے لیے متعلقہ تھانے کی حدود سے باہر جانے کی اجازت ہے۔

فیصلے میں عدالتی احکامات عمل درآمد کے لیے ایس ایس پی سینٹرل کو ارسال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بچوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ ان کی خالہ اور خالو کا رویہ ظالمانہ تھا، بچوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ وہ اپنی دوسری خالہ فرحین عرف سونیا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، دونوں بچوں کے والدین کی 2015 میں علیحدگی ہوگئی تھی، بچوں کی والدہ یو اے ای میں رہتی ہیں اور کبھی کبھار بچوں سے ملنے آتی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ علیحدگی کے بعد والد نے بچوں کی کسٹڈی کے حوالے سے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا، بچوں کی کسٹڈی ان کے والد کا حق ہے تاہم والد کی جانب سے ماضی میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے، بچوں نے کہا وہ اپنی خالہ فرحین عرف سونیا کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، عدالت بچوں کی عارضی کسٹڈی خالہ فرحین عرف سونیا کے حوالے کرتی ہے، بچوں کی خالہ دونوں بچوں کی کسٹڈی کے لیے 5، 5 لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے جمع کرائیں۔

گمشدگی

یاد رہے کہ گزشتہ روز نارتھ ناظم آباد سے 2 کم عمر بچے لاپتا ہو گئے تھے، لاپتا ہونے والے بچوں کے ماموں نے بتایا تھا کہ ایان اور انابیہ رات کو 11 بج کر 50 منٹ پر نیچے اترے تھے، اہلخانہ کا کہنا تھا کہ پولیس کواطلاع کردی گئی ہے لیکن تاحال کوئی مدد نہیں کی گئی۔

دوسری جانب حیدری کے اسٹیشن ہاؤس افسر نے بتایا کہ نارتھ ناظم آباد سے لاپتا ہونے والے بچوں کی تلاش جاری ہے، پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیجز چیک کرنا شروع کردیں ہیں، بچوں کی گمشدگی کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔

لاپتا بچوں کی والدہ نے سوشل میڈیا پر مدد کے لیے پوسٹ بھی جاری کردی تھی، اپنے بیان میں والدہ نے بتایا کہ بچوں کو ہر جگہ ڈھونڈا لیکن کوئی معلومات نہ مل سکی ہیں، اگر کسی کو بچوں سے متعلق کچھ پتا ہو تو ضرور اطلاع دیں۔

لاپتا بچوں کے والد کے مطابق انہیں سحری کے وقت بچوں کی گمشدگی کی اطلاع ملی۔

بازیابی

بعدازاں گمشدہ بچوں کی والدہ شمائلہ نے کمسن ایان اور انابیہ کے ملنے کی تصدیق کردی تھی۔

والدہ نے بتایا کہ 2 نامعلوم افراد بچوں کو حیدری چھوڑ کر چلے گئے تھے، انہیں ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی تھی کہ بچوں کو حیدری پر چھوڑ دیا جائے گا، جب ان کے بھائی اس مقام پر پہنچے تو بچے وہاں موجود تھے۔

پولیس حکام نے بتایا تھا کہ بچوں کا بیان قلمبند کیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ جو افراد لے کر گئے تھے اگر ان کی شناخت ممکن ہے تو ان کا خاکہ بنایا جائے گا۔

سینیئر سپرٹینڈنٹ پولیس کا کہنا تھا کہ مختلف مقامات پر تفتیش کی گئی ہے اور کوشش کی گئی کہ ملزمان کا روڈ میپ بنایا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حیدری مارکیٹ پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364-اے کے تحت ایف آئی آر درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔

دوسری جانب ترجمان رینجرز کا کہنا تھا کہ یہ اغوا کا کیس تھا جسے پیرا ملٹری فورس اور پولیس نے مل کر ناکام بنادیا۔

ترجمان رینجرز نے مزید کہا کہ کم سن بہن بھائی کی والدہ کو بیرون ملک سے تاوان کی کال آئی تھی اور اغوا کاروں نے 10 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ رینجرز اور پولیس نے اطلاع ملنے پر تکنیکی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بچوں کا سراغ لگایا، اغوا کاروں نے اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے بچوں کو حیدری مارکیٹ میں چھوڑ دیا۔

بچوں اور والدہ کے متضاد بیانات

بچوں نے گھر پہنچ کر بتایا کہ وہ خود گھر سے گئے تھے کیونکہ ان کی خالہ ان سے واشروم اور برتن دھلواتی تھیں اور اُن پر تشدد کرتی تھیں۔

پولیس حکام نے بتایا کہ یہ ابتدائی طور پر بچوں کی جانب سے بیان سامنے آیا جبکہ مزید تحقیقات جاری ہے۔

پولیس نے کہا کہ بچوں نے بیان دیا ہے کہ وہ پہلے نارتھ کراچی کی فوڈ اسٹریٹ پر موجود تھے اور انہوں نے کافی وقت وہاں گزارا پھر وہ مختلف گلیوں میں ٹہلتے رہے اور رات انہوں نے سڑکوں اور گلیوں پر ہی گزاری۔

بعدازاں دونوں بچوں کی والدہ شمائلہ ناز کا متضاد بیان سامنے آیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ کیس اغوا کا تھا، پولیس نے اسے کہیں اور موڑ دیا۔

والدہ کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں بچوں سے جو کہلوایا جا رہا ہے اور اس تمام وقت میں بچوں کو کتنا ٹارچر کیا گیا ہوگا کہ وہ ایک ہی بات بار بار دہرائے جارہے ہیں، خدا کا واسطہ ریٹنگز کے لیے میرے خاندان کی عزت سے نہ کھیلیں۔

واضح رہے کہ بچوں کے والد نے 8 سال قبل اہلیہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، ان کی والدہ دبئی میں ملازمت کرتی ہیں، دونوں بچے اپنے ماموں راشد کے ساتھ ہی رہتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں