پیپلز پارٹی نے سینیٹ انتخابات کیلئے امیدواروں کا اعلان کردیا

انتخابات کے لیے پولنگ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہوگی—فوٹو: ڈان نیوز
انتخابات کے لیے پولنگ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہوگی—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز (پی پی پی پی) نے پارٹی قیادت کی منظوری کے بعد 2 اپریل کو ہونے والے پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کی جانب سے جاری فہرست کے مطابق سندھ سے سینیٹ کی جنرل نشستوں کے لیے کاظم شاہ، اشرف جتوئی، مسرور احسن، ندیم بھٹو، سرفراز راجر، دوست علی جیسر کو نامزد کیا گیا ہے۔

صوبے سے ٹیکنوکریٹس کی سیٹوں کے لیے بیرسٹر ضمیر گھمرو، سرمد علی امیدوار ہوں گے، خواتین کی نشستوں پر قرۃ العین مری اور روبینہ قائم خانی کو نامزد کیا گیا جب کہ سندھ سے غیر مسلم کے لیے مختص سیٹ پونجو بھیل امیدوار ہوں گے۔

اس کے علاوہ بلوچستان سے میر چنگیز خان جمالی، سردار عمر گورگیج پارٹی کے امیدواور ہوں گے جب کہ ایمل ولی خان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اور جان محمد بلیدی پی پی پی اور عوامی پارٹی (این پی) کے مشترکہ امیدوار نامزد کیے گئے ہیں۔

صوبے سے ٹیکنوکریٹ کی سیٹ کے لیے بلال مندوخیل کو نامزد کیا گیا ہے، اس کے علاوہ خواتین کی سیٹوں پر محترمہ عشرت بروہی اور کرن بلوچ امیدار ہیں۔

پیپلزپارٹی نے خیبر پختونخوا سے روبینہ خالد، پنجاب سے فائزہ احمد ملک اور اسلام آباد سے رانا محمود الحسن کو نامزد کیا ہے۔

رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو سمیت کئی سینئر رہنما سینیٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام

پیپلز پارٹی کے سینیٹ سے ریٹائرڈ ہونے کئی سینئر رہنما ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، ان میں رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو اور وقار مہدی بھی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ خالدہ سکندر میندھرو ، کھیسو بائی اور سید محمد علی جاموٹ بھی سینیٹ کے ٹکٹ سے محروم رہے جب کہ ریٹائرڈ سینیٹر قرۃ العین مری ایک بار پھر ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ کی 48 نشستوں پر 2 اپریل کو انتخابات کرانے کا شیڈول جاری کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق کاغذات نامزدگی 15 اور 16 مارچ کو جمع کروائے جا سکیں گے، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 19 مارچ تک کی جائے گی۔

نوٹی فکیشن کے مطابق کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں 25 مارچ تک نمٹائی جائیں گی جبکہ امیدواروں کی حتمی فہرست 27 مارچ کو آویزاں کی جائے گی۔

انتخابات کے لیے پولنگ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہوگی۔

سابق فاٹا کے 4 ارکان کی جانب سے خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب نہیں ہوگا، سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد سینیٹ میں فاٹا کے لیے مختص نشستیں آئینی ترمیم کے تحت ختم ہوچکی ہیں، اب سینیٹ میں ارکان کی تعداد 100 سے کم ہو کر 96 رہ جائے گی۔

48 نشستوں پر انتخاب عمل میں لایا جائے گا جن میں پنجاب کی 7 جنرل نشستوں اور خواتین کی 2 علما اور ٹیکنوکریٹ کے لیے 2 اور غیر مسلم کی ایک نشست پر انتخاب ہوگا۔

سندھ کی 7 جنرل، 2 خواتین ،2 علما اور ٹیکنوکریٹ اور ایک غیر مسلم کی نشست پر انتخاب ہوگا، خیبر پختونخوا کی 7 جنرل ، 2 خواتین ،2 علما اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر انتخاب ہوگا۔

اس کے علاوہ بلوچستان کی 7 جنرل ، 2 خواتین ،2 علما اور ٹیکنوکریٹ نشستوں پر انتخاب ہوگا، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر انتخاب ہو گا۔

خیال رہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی، قائد ایوان اسحٰق ڈار، قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم اور سینیٹر رضا ربانی سمیت سینیٹ کے 52 ارکان کی مدت 11 مارچ کو مکمل ہو گئی تھی۔

12 مارچ کو ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں 52 سینیٹرز کے ریٹائر ہونے کے بعد سینیٹ اب کم از کم 3 ہفتوں تک غیر فعال رہے گی۔

مزید بتایا تھا کہ سینیٹر کی مدت 6 سال ہوتی ہے لیکن ان میں سے نصف ہر 3 سال بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں اور خالی نشستوں پر انتخابات کرائے جاتے ہیں، یہ انتخابات عام طور پر سینیٹرز کی مدت ختم ہونے سے کچھ روز قبل ہوجاتے ہیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہو سکا۔

عام انتخابات میں تاخیر، انتخابات کے بروقت انعقاد میں الیکشن کمیشن کی ناکامی کی وجہ سے الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی کے سبب یہ انوکھی صورتحال سامنے آئی ہے۔

11 مارچ کو ریٹائر ہونے والوں میں سے صرف 7 کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، ان میں اپوزیشن لیڈر کے علاوہ اعظم سواتی، فیصل جاوید خان اور ولید اقبال سمیت دیگر شامل ہیں۔

پہلی بار 2015 میں سینیٹ میں آنے والی پی ٹی آئی پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کی وجہ سے مارچ 2021 میں سینیٹ کی واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی۔

پیپلزپارٹی کے 21 میں سے 12 سینیٹرز اور مسلم لیگ (ن) کے 16 میں سے 11 سینیٹر کی مدت بھی 11 مارچ کو مکمل ہو گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں