لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

اسلام آباد میں نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کا منظرنامہ کیا ہوگا؟ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد نے دونوں ممالک کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔

تاہم اس موقع پر دیا جانے والا پیغام ماضی میں دیے جانے والے پیغامات کے مقابلے میں مختصر تھا کیونکہ اس میں تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا گیا۔ جبکہ وزیراعظم شہبار شریف کا جواب بھی اتنا ہی مختصر تھا۔ پاک-بھارت تعلقات کی موجودہ پیچیدہ نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان روایتی پیغامات کے تبادلے میں کوئی اور مطلب تلاش کرنا غلطی ہوگی۔

دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات اگست 2019ء سے تعطل کا شکار ہیں کہ جب بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، غیرقانونی طور پر جموں اور کشمیر کی متنازع ریاست کے ساتھ الحاق کیا۔ رسمی مذاکرات اور امن عمل تو بھارت کی جانب سے بہت پہلے ہی معطل کیا جاچکا تھا۔ لیکن بھارت کے اگست 2019ء کے غیرقانونی اقدام کے نتیجے میں مقبوضہ وادی پر طویل عرصے کے لیے لاک ڈاؤن اور پابندیاں لگائی گئیں جس نے پاکستان کو تجارت معطل اور اپنے ہائی کمشنر کو وطن واپس بلا کر سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر مجبور کیا۔

پاکستان نے فیصلہ کیا کہ بھارت کی جانب سے اگست 2019ء کے الحاق کے فیصلے کو واپس لینے پر ہی مذکرات بحال ہوسکتے ہیں۔ بھارت نے کسی بھی بات چیت میں دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ اس کے بجائے اس نے کشمیر میں اپنی جابرانہ پالیسیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھیں۔ پاکستان کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت نے کشمیری مسلمانوں کے لیے ان کی زمین تنگ کرنے کے لیے قانونی، آبادیاتی اور انتخابی حوالوں سے اقدامات کیے۔

تاہم 2021ء-2020ء میں بیک چینل روابط کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کچھ حد تک برف پگھلنے کی امیدیں پیدا ہوئیں۔ یہی وجہ تھی کہ فروری 2021ء میں 2003ء کی مفاہمت کے تحت دونوں ہمسایوں میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ یہ انتہائی اہم تھا کیونکہ محض دو سال قبل پلوامہ-بالاکوٹ معاملہ (جس کا آغاز بھارت نے پاکستانی حدود میں ایئر اسٹرائیک سے کیا) کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک تصادم کی نہج پر تھے۔

گزشتہ 3 سال سے ایل او سی پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد ہورہا ہے۔ لیکن کشمیر سمیت کسی بھی معاملے پر بیک چینل بات چیت کی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی جس سے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار ہوسکے۔ اگرچہ عملی مسائل پر روابط ہوئے جیسے قیدیوں کی رہائی اور مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے ویزوں کا اجراح ہوا، لیکن سفارتی تعلقات تعطل کا شکار رہے۔

جنوری 2023ء میں بطور وزیراعظم اپنے پہلے دورِ حکومت میں شہباز شریف نے کشمیر سمیت ’سنگین مسائل‘ کے لیے بھارت کے ساتھ ’سنجیدہ اور مخلصانہ مذاکرات‘ کرنے پر زور دیا۔ العریبیہ کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ پڑوسیوں کو امن کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی مذاکرات کے لیے اپنی آمادگی کا بھی اظہار کیا۔ اس کے بعد کی گئی حکومتی وضاحت میں کہا گیا کہ اگست 2019ء کا اقدام واپس لینے تک بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے جس پر دہلی نے ردعمل دیا کہ بات چیت کے لیے ماحول سازگار نہیں۔

اس کے باوجود مئی 2023ء میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے شنگھائی کارپوریشن کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت جاکر کچھ حد تک تعلقات میں بہتری کا موقع فراہم کیا۔ لیکن یہ موقع بھی گنوادیا گیا کیونکہ دونوں ممالک کے نمائندگان میں دوطرفہ ملاقات نہیں ہوئی۔ اس کے بجائے دونوں فریقین باہمی الزام تراشیوں میں مصروف نظر آئے جہاں بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے بلاول بھٹو زرداری پر ’دہشتگردوں کا ترجمان‘ ہونے کا الزام عائد کیا۔

اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کی طویل فہرست میں پچھلے سال ایک اور تنازع کا اضافہ ہوا۔ یہ 1960ء میں طے ہونے والا سندھ طاس معاہدہ تھا جو 6 دہائیوں تک دونوں ممالک کے درمیان جنگوں، تصادم اور تناؤ کی زد میں رہا۔ دہلی نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے جو مؤقف اختیار کیا اس نے اس معاہدے کے مستقبل کے حوالے سے سوالات کھڑی کردیے۔ 2023ء کے آغاز میں بھارت نے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے میں تنازعات کو حل کرنے سے متعلق شقوں میں ترامیم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ دریائے چناب اور جہلم پر بھارتی ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں جس کا اثر پاکستان کے دریاؤں پر پڑے گا، اس حوالے سے بھارت نے ہیگ میں ثالثی عدالت کی سماعت کا بھی بائیکاٹ کیا۔ یہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔

اسی پس منظر میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اپریل اور مئی میں متوقع بھارتی انتخابات سے آغاز کرتے ہیں تو ہمیں کسی بھی سفارتی اقدام کے لیے انتخابی نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اگر انتخابی مہم میں پاکستان پر الزام تراشی کا سہارا لیتی ہے تو اس سے ان کے ارادوں کا اندازہ ہوجائے گا۔ انتخابی بیان بازی کو ایک جانب رکھیں تو بھارت پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی دوطرفہ بات چیت میں کشمیر موضوع نہیں ہوگا اور نہ اس پر مذاکرات ہوں گے۔

متضاد بھارتی مؤقف کے پیش نظر، شہباز حکومت کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت انتہائی سنگین چیلنج بن جائے گا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حوالے سے دو نقطہ نظر ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ پاکستان کو کشمیر کے تنازع کو ایک جانب کرکے تجارت اور ہائی کمشنر کی سطح پر سفارتی تعلقات بحال کرنے چاہئیں۔ تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ رسمی مذاکرات بحال کرنے کے لیے کتنا سنجیدہ ہے۔

دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس طرح کے مذاکرات مکمل طور پر بھارت کی شرائط پر ہوں گے جس کا مطلب کشمیر کو چھوڑنا اور اگست 2019ء کے اس کے اقدام کو غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔ بھارت طویل عرصے سے تنازعات حل کیے بغیر ہی تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے، ان شرئط پر مذاکرات کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ پاکستان اپنے دعووں سے دستبردار ہوگیا ہے۔ کسی بھی حکومت کے لیے عوام کو اس پر رضامند کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تب تک وقت لے جب تک مذاکرات میں اس کی حیثیت مضبوط نہ ہوجائے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی معیشت کو بھی مضبوط کرے۔ آخرکار پاکستان 5 برس سے زائد وقت تک مذاکرات کیے بغیر بھی تو جی رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان دو نظریات یا آپشنز یعنی دوطرفہ تعلقات کی بنیاد پر اور کشمیر کی اصولی اور قانونی حیثیت پر سمجھوتہ کیے بغیر، کوئی درمیانی راستہ ہو جس کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوسکیں؟ دو ایٹمی طاقت کی حامل ریاستوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کی ضرورت سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ تناؤ اور غلط فہمیاں کم کرنے کے لیے معمول کے روابط ہونے چاہئیں۔

اس کے علاوہ کچھ عملی مسائل بھی ہیں جن پر مستقل بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر ہائی کمشنر کی سطح پر سفارتی تعلقات کی بحالی مدد کرسکتی ہے جبکہ پاکستان اپنے بنیادی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔ حتیٰ کہ مواقع کم ہیں لیکن بنیادی مسائل پر پاکستان کی واضح کردہ ریڈ لائنز کی خلاف ورزی کیے بغیر تعلقات کی برف پگھلانے کے لیے یہ راستہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں