عدالتی حکام نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو چھپانے پر سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف دائر درخواست پر عید کے بعد سماعت کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ مئی 2023 کے بعد سے عملی طور پر التوا کا شکار ہے، جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس کیس کی سماعت کرنے والے 3 رکنی بینچ کو تحلیل کر دیا تھا جب درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں دو ججوں کی رائے عدالت کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل 3 رکنی لارجر بینچ نے 30 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جب کہ جسٹس کیانی اور جسٹس طاہر نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کے خلاف رائے دی تھی۔

اکثریتی فیصلہ منظر عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نیا بنچ تشکیل دیا تھا جس میں جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفعت امتیاز شامل تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قوانین کے مطابق سینئر ترین جج کسی مقدمے میں کارروائی کی صدارت کرتا ہے اور رجسٹرار کا دفتر صدارت کرنے والے جج کی رضامندی سے سماعتوں کو مقرر کرتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ اس کیس کی فائل پریزائیڈنگ جج جسٹس جہانگیری کو گزشتہ سال بھیجی گئی تھی اور انہوں نے رجسٹرار آفس کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس معاملے کو زیر التوا رکھیں کیونکہ انہیں سماعت کی تاریخ سے آگاہ کرنا تھا۔

اہلکار نے مزید کہا کہ اس معاملے کو جج کے علم میں لایا جائے گا اور امکان ہے کہ کیس کو عید کی چھٹیوں کے بعد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ 10 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کے خلاف مبینہ بیٹی چھپانے کا کیس اس وقت غیر معمولی ڈرامائی انداز اختیار کرگیا تھا جب جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب طاہر کی طرف سے درخواست کو خارج کرنے کا اکثریتی فیصلہ چند منٹ بعد ہی عدالت کی ویب سائٹ سے حذف کر دیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے مبینہ طور پر بیٹی چھپانے کے خلاف دائر درخواست پر اکثریتی فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریر کیا اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے اس کی توثیق کی جس میں کہا گیا کہ درخواست شروع سے ہی قابلِ سماعت نہیں تھی۔

لارجر بینچ نے درخواست دائر کرنے میں درخواست گزار کے طرز عمل کی بھی نفی کی اور استفسار کیا کہ درخواست گزار کو اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے تھا کہ عدالت ایسا آلہ نہیں جس کا استعمال غیر متعلقہ معاملات کے لیے ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے دو رکنی بینچ کا فیصلہ معطل کر دیا

بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے تعلقات عامہ افسر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ فیصلہ جاری کیے بغیر اور فیصلہ جاری کرنے کے لیے کاز لسٹ کے اجرا کے بغیر یا فریقین اور ان کے وکلا کو آگاہ کیے بغیر اور بینچ کے تیسرے رکن (چیف جسٹس ہائی کورٹ) کے دستخط کے بغیر، دو ججوں کی رائے آفس نوٹس کے ہمراہ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی گئی جو عدالت کا فیصلہ نہیں ہے اور رولز اور روایات کے خلاف ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے کیس کی دوبارہ سماعت کے لیے بینچ دوبارہ تشکیل دے دیا۔

خیال رہے کہ 2 فروری 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کاغذات نامزدگی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کا ذکر نہ کرنے پر ان کی نااہلی کی درخواست پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

یکم فروری کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے جج پر اعتراض کرتے ہوئے کیس خارج کرنے کی اپیل کی تھی۔

درخواست گزار کا مؤقف

خیال رہے کہ عمران خان پر مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے، شہری محمد ساجد محمود نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نااہل کرنے کی استدعا کر رکھی ہے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان نے برطانیہ میں ٹیریان وائٹ کی کفالت کے انتظامات کیے لیکن اپنے کاغذات نامزدگی میں اور الیکشن لڑنے کے حلف نامے میں اس کا ذکر نہیں کیا۔

درخواست گزار کے وکیل کے طور پر پیش ہونے والے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کی جانب سے 18 نومبر 2004 کے ڈیکلیریشن پر مشتمل اضافی دستاویز پیش کی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ میں نے یہ ڈیکلیریشن ٹیریان جیڈ خان وائٹ کی درخواست کی حمایت میں کیا ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ کیرولین وائٹ (ٹیریان کی والدہ اینا لوئیسا سیتا وائٹ کی بہن) کو ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے۔

ڈیکلیریشن میں مزید کہا گیا ہے کہ جمائما خان نے ٹیریان جیڈ کے سرپرست کے طور پر خدمات انجام دینے سے انکار کردیا تھا اور سرپرستی کے لیے کیرولین وائٹ کا نام تجویز کیا تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ ٹیریان کے بہترین مفاد اور خواہش کے مطابق ہے۔

اینا لوئیسا (سیتا) وائٹ لارڈ گورڈن وائٹ کی بیٹی تھی جنہوں نے ایک بڑے صنعتی گروپ ہینسن پی ایل سی کی امریکی شاخ کی سربراہی کی۔

درخواست گزار ساجد محمود نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے سیتا وائٹ سے شادی نہیں کی کیونکہ اس کے ’نسل پرست‘ والد نے مدعا علیہ (عمران خان) کو دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے سیتا وائٹ سے شادی کی تو ان دونوں کو اس کی دولت میں سے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا۔

اس کے بعد ہی عمران خان کی ملاقات ایک اور امیر خاتون جمائما سے ہوئی اور بہت ہی کم عرصے میں ان سے شادی کرلی۔

درخواست میں ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا جن میں ٹیریان جیڈ کی تحویل جمائما کو دی گئی تھی۔

اس میں کہا گیا کہ اینا لوئسیا وائٹ نے 27 فروری 2004 کی اپنی وصیت میں جمائما خان کو اپنی بیٹی ٹیریان جیڈ خان وائٹ کا سرپرست نامزد کیا تھا، بعد ازاں اسی برس 13 مئی کو سیتا وائٹ کا انتقال ہوگیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ جمائما گولڈ اسمتھ 1995 سے 2004 تک عمران خان کی شریک حیات تھیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چھپائے گئے حقائق کی تصدیق کیلیفورنیا کی ایک عدالت کی جانب کیے گئے فیصلے سے ہوئی جہاں یہ کہا گیا کہ مدعا علیہ (عمران خان) ٹیریان جیڈ کے والد ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ عمران خان ابتدائی طور پر اپنے اٹارنی کے توسط سے کارروائی میں شامل ہوئے لیکن جب انہیں خون ٹیسٹ کرانے کا کہا گیا تو وہ کیس کی پیروی سے پیچھے ہٹ گئے۔

پٹیشن میں الزام لگایا گیا ہے کہ بعد میں جب سیتا وائٹ کی بہن کیرولین وائٹ نے عدالت سے کہا کہ اسے ٹیریان کا سرپرست مقرر کیا جائے تو انہوں نے عدالت میں ڈیکلیریشن جمع کرایا۔

تبصرے (0) بند ہیں