دو دہائیوں تک انصاف سے بھاگنے کے بعد 2005 میں برطانوی پولیس افسر کو قتل کرنے کے الزام میں ایک پاکستانی کو لندن میں سزا سنا دی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی سی شیرون بیشینوسکی 38 سالہ اور تین بچوں کی والدہ تھی، جب بریڈ فورڈ میں ایک ٹریول ایجنسی کے باہر مسلح ڈکیتی کی اطلاع پر پہنچنے والی افسر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

75 سالہ پیراں دتہ خان 2006 سے برطانوی حکام کو مطلوب تھے، انہیں لیڈز کراؤن کورٹ میں مجرم قرار دے دیا گیا، واردات میں ملوث ملوث 6 افراد کو پہلے ہی سزا دی جاچکی ہے۔

پیراں دتہ خان کو 1-10 کی اکثریت سے قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا، جبکہ 11 ججوں نے 4 دنوں میں تقریباً 19 گھنٹے تک بحث کی، اسے زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے ارادے سے آتشیں اسلحہ رکھنے کے 2 الزامات میں بھی سزا دی گئی، جبکہ ممنوعہ ہتھیار رکھنے کے 2 الزامات میں متفقہ طور پر سزا سنائی گئی۔

یہ واقعہ 18 نومبر 2005 کو سامنے آیا، جب شیرون بیشینوسکی اور پی سی ٹریسا ملبرن ایک الرٹ کال موصول ہونے پر بریڈ فورڈ میں مورلی اسٹریٹ پر واقع ایک ٹریول ایجنسی پر جیسے ہی پہنچے تو 3 حملہ آوروں نے ان پر گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں شیرون بیشینوسکی ہلاک اور ملبرن زخمی کر دیا۔

استغاثہ نے کہا کہ سابق ٹیک وے باس پیراں دتہ خان اس گروپ کا سرغنہ تھا، اس نے منصوبہ بندی کرنے میں ’اہم‘ کردار ادا کیا اور وہ جانتا تھا کہ آتشیں اسلحے کو استعمال کیا جانا تھا۔

انہوں نے ججوں کو بتایا کہ یہ شیرون بیشینوسکی کو قتل کا قصوروار ٹھہراتا ہے، یقینی طور پر اس طرح کہ اس نے خود پستول کو ٹریگر دبایا ہو۔

عدالت کو بتایا گیا کہ وہ اس گروپ میں سے واحد تھا جو یونیورسل ایکسپریس سے واقف اور ماضی میں اس کا استعمال پاکستان میں فیملی کو رقم بھیجنے کے لیے کرتا تھا۔

پیراں دتہ خان نے ججوں کو بتایا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ڈکیتی کی جا رہی ہے، یا یہ کہ اسلحہ لے جایا جائے گا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ کاروبار کے مالک محمد یوسف کے ذمے ان کے 12 ہزار پاؤنڈ واجب الادا تھے، اور ڈیٹ کلکٹر حسن رزاق نے اس جوڑے کی ایک کاروباری ساتھی کے ذریعے ملاقات کے بعد ان کی رقم واپس دلانے کی پیش کش کی۔

پیراں دتہ خان کا کہنا تھا کہ میرا خیال تھا کہ حسن رزاق نے جو آدمی بھیجے ہیں وہ یونیورسل ایکسپریس کے عملے کو ’دھمکی‘دیں گے یا زیادہ سے زیادہ ’انہیں تھپڑ ماریں گے‘۔

پراسیکیوٹر رابرٹ اسمتھ نے عدالت کو بتایا کہ پیراں دتہ خان کا دھوکا دہی کا دعویٰ ’مکمل طور پر جھوٹ‘ اور یہ بتانے کی کوشش ہے کہ وہ کیوں ڈکیتی اور قتل کے وقت بریڈ فورڈ پر تھے۔

پیراں دتہ خان نے ججوں کو بتایا، جو اس وقت اینفیلڈ لندن میں رہائش پذیر تھے، کہ چھاپے سے پانچ دن قبل حسن رزاق ان کو جاسوسی کے سفر پر یارکشائر لے گیا تھا۔

ڈکیتی سے ایک روز قبل وہ دوبارہ لیڈز میں ایک ’محفوظ گھر‘ گئے جہاں انہوں نے رات گزاری۔

گھر کی تزئین و آرائش کا کام کرنے والے فرانکوئس بیرن نے بعد میں پولیس کو بتایا کہ اس نے ایک بیڈ روم میں ڈاکوؤں کو منصوبے پر بحث کرتے سنا۔

فرانکوئس بیرن نے بتایا کہ انہوں نے گن مین مذکر شاہ کو پیراں دتہ خان ​​سے پوچھتے ہوئے سنا کہ ’انکل، کیا یہ محفوظ ہے؟‘ جس پر پیراں دتہ نے جواب دیا، ’ہاں، یہ محفوظ ہے‘۔

پیراں دتہ خان گرفتاری سے بچنے کے لیے قتل کے 2 ماہ بعد پاکستان فرار ہو گیا تھا اور 2020 میں اسلام آباد میں گرفتار ہونے تک آزاد رہا، ان کے وکیل نے کہا تھا کہ پیراں دتہ خان چاہتا ہے کہ ان کے آبائی ملک میں مقدمہ چلایا جائے۔

حوالگی معاہدے کی عدم موجودگی کے باوجود سی پی ایس، نیشنل کرائم ایجنسی اور پاکستانی حکام نے اپریل 2023 میں پیراں دتہ خان کی برطانیہ واپسی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے مل کر کام کیا، جہاں گرفتار کر کے اس پر فرد جرم عائد کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں