متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی میں چور اور سپاہی دونوں کا تعلق شہر سے نہیں ہے۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جرائم کی روک تھام کی ذمہ داری جس پولیس والوں کی ہے، اس کا تعلق اس شہر سے ہے ہی نہیں، وہ اس کو اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتا۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ بینک بیلنس، جائیداد کو بڑھانے کے لیے کراچی میں پوسٹنگ ایک موقع سمجھا جاتا ہے، کراچی کے حالات کے بارے میں ہم محتاط انداز میں ہمیشہ کہتے ہیں کہ اس کا مسئلہ یہی ہے کہ چور اور سپاہی دونوں اس شہر کے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس رمضان میں 50 کے قریب نوجوان ان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، ان میں تمام زبان بولنے والے تھے، لیکن جن لوگوں نے امن قائم کرنا ہے، ان کا تعلق اس شہر سے نہیں ہے۔

سربراہ ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ یہ بعض صورتوں میں اس شہر کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں، اپنا سیاسی مخالف اور اپنا جیسا نہیں سمجھتے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں تمام جمہوری ممالک میں لوکل پولیسنگ ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ لیاری کی جو پولیس ہو، اس میں لیاری کی گلیوں میں رہنے والے نوجوانوں کو نوکری دے کر ان کی ذمہ لگائیں کہ اپنے علاقے اور محلے کی نگرانی کریں۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ لیاقت آباد میں لیاقت آباد کےنوجوان، اورنگی میں اورنگی کے اور کورنگی میں کورنگی کے نوجوانوں کو آپ نوکری دیں، پوری دنیا میں یہی طریقہ ہے، پاکستان میں بھی یہی طریقہ ہے، اسی لیے بار بار سوال کرتے ہیں کہ جب پشاور میں پشاور کی پولیس ہے، لاہور میں لاہور کی اور لاڑکانہ میں لاڑکانہ کی پولیس ہے تو پھر کراچی میں کہیں اور کی پولیس کیوں ہے؟

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس کا کیا مقصد ہے کہ کیا آپ کراچی کو اس طرح پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے، اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ قانون توڑنے والے اور قانون نافذ کرنے والے دونوں کا تعلق اس شہر سے نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 15 سال سے ان کے پاس سارے اختیارات ہیں، پولیس ان کی ہے، ان کو ہزاروں ارب روپے یہ شہر دیتا ہے، وزیراعلیٰ نے ابھی تک آ کر یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ کس کی ذمہ داری تھی، یہ ایم کیو ایم (پاکستان) کی ذمہ داری تھی، وفاقی حکومت کی یا پھر حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں