لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

پاکستان کے شاید ہی کوئی انتخابات تنازعات سے پاک رہے ہوں، اور سینیٹ الیکشن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ حالیہ منعقدہ صدارتی انتخاب اس حوالے سے منفرد تھے۔ ہارنے والے سنی اتحاد کونسل (تحریک انصاف) کے مشترکہ امیدوار محمود خان اچکزئی نے سیاسی پختگی اور جمہوری اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست کو تسلیم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے فاتح امیدوار آصف علی زرداری کو مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے الیکشن کی شفافیت کو بھی سراہا اور یہ بھی کہا کہ ماضی کے برعکس ان انتخابات میں ووٹ کے حصول کے لیے رقم کا عمل دخل نہیں رہا۔

لیکن ایک ہی ماہ بعد نصف سینیٹ کے حوالے سے کہانی مختلف ہوگئی۔ ووٹ کے لیے پیسوں کے لین دین کے الزامات نہ ہونے کے باوجود، جو کہ سینیٹ کے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بڑی تبدیلی تھی، کچھ سنجیدہ آئینی و قانونی تنازعات نمودار ہوئے، جو اب تک عروج پر ہیں حالانکہ فاتح امیدواروں کا اعلان بھی ہوچکا۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا آخری گھڑیوں میں خیبر پختونخوا کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کا غیر معمولی فیصلہ قابل ذکر ہے، اس کے باجود کہ دیگر تین صوبوں اور وفاق میں انتخابات عمدگی سے ہوئے۔

خیبر پختونخوا وہ واحد صوبہ ہے جہاں پی ٹی آئی صوبائی اسمبلی میں مکمل اکثریت رکھتی اور اپنے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں کامیاب ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو پارلیمانی پارٹی نہیں گردانتا اور اب تک پارٹی کے قانون ساز ممبران کو آزاد امیدواروں کے طور پر دیکھتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے الیکشن سے انکار دیگر اسمبلیوں میں چناؤ کے دن کیا، اور وجہ یہ رہی کہ اسپیکر نے خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص سیٹوں پر منتخب دیگر مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 25 ارکان کاحلف لینے سے انکار کردیا۔

اگر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی (ایس آئی سی) کو اسمبلی کی ایک مستند جماعت کے طور پر تسلیم کیا ہوتا جس سے مخصوص نشستوں کو عام انتخابات میں جیتی جانے والی عام نشستوں کے برابر مختص کرنا ممکن ہوجاتا، تو یہ نشستیں پی ٹی آئی کے نام ہوتیں۔

پی ٹی آئی اس امر پر تو کسی حد تک راضی ہے کہ یہ سیٹیں انہیں نہیں مل سکتیں، لیکن اس بات کو مکمل طور پر ناقابل قبول پاتی ہے کہ وہ سیٹیں، جن پر اس کا حق تھا، مخالف سیاسی جماعتوں میں تقسیم کردی جائیں۔

قانون کی ایک عجیب و غریب بلکہ بے جا تشریح کے مطابق، ان میں سے کچھ جماعتوں نے خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص سیٹیوں پر عام انتخابات سے زیادہ سیٹیں جیت لیں۔ مثال کے طور پر جے یو آئی (ف) 8 فروری کو منعقدہ انتخابات میں خیبر پختونخوا کی 7 جنرل سیٹوں پر فاتح رہی لیکن 10 مخصوص نشستیں حاصل نہ کر پائی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 5 اور پیپلزپارٹی نے 4 جنرل نشستیں اپنے نام کیں اور انہیں بالترتیب 8 اور 6 مخصوص نشستیں دے دی گئیں۔

پی ٹی آئی کے لیے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ، چاہے اسے کتنا ہی غیرمنصفانہ قرار دیا جائے، پشاور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی مشترکہ توثیق حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اسپیکر کو ہدایت کی گئی کہ مخصوص نشستوں پر ’منتخب‘ ممبران کا حلف لیا جائے۔ چونکہ ’منتخب‘ ممبران کا حلف اسمبلی کے سیشن میں ہی لیا جاسکتا ہے، اور اسپیکر کے پاس اسے طلب کرنے کا کوئی قانونی مکینزم موجود نہیں (ایسا کم از کم 25 فیصد ممبران کی درخواست پر ممکن ہے) لہذا اسمبلی کا یہ سیشن منعقد نہ ہوا اور مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران کا حلف لیا نہ جاسکا۔

اس صورت حال میں صرف صوبائی اسمبلی یہ اختیار رکھتی ہے کہ گورنر کو سیشن طلب کرنے کے لیے بائنڈنگ ہدایت جاری کرے۔ گورنر نے یہ اجلاس اپنے طور پر طلب کرنے کی کوشش کی لیکن صوبائی حکومت اور اسمبلی سیکریٹیریٹ، دونوں نے یہ کوشش آئینی طورپرناکام بنادی۔ دراصل ہائی کورٹ کو مذکورہ ہدایت اسپیکر نہیں بلکہ صوبائی حکومت کو جاری کرنا چاہیے تھی۔

اگرمذکورہ 25 قانون وساز ممبران حلف لینے میں کامیاب ہوتے اور اپنی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دیتے، تو حزب اختلاف اصولی طور پر سینیٹ کی کم از کم 4 اضافی سیٹیں جیت لیتی۔ اب پشاور ہائی کورٹ میں اسپیکر کی پٹیشن کو سنا جائے گا کہ جس میں الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کی توثیق کرنے والے عدالتی حکم پر نظرثانی کی درخواست کی گئی ہے۔

لیکن عدالت اسی وقت یہ کیس سن سکتی ہے اگر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جاچکا ہو۔ یہ معاملہ بلآ خر سپریم کورٹ کو ہی حل کرنا ہے، کب؟ یہ بتانا کسی کے لیے ممکن نہیں۔

کیا سینیٹ کے لیے خیبر پختونخوا کے 11 نمائندگان کے بغیر آپریٹ کرنا اور چیئرمین، نائب چیئرمین کا انتخاب کرنا ممکن ہوگا؟ اس حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سینیٹ آئین کے آرٹیکل 60 کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے؟ آئین و قانون میں ایسا کچھ موجود نہیں جس کے مطابق ایسا نہ ہونا ثابت ہوتا ہو۔

چوتھا صوبہ، یعنی خیبر پختونخوا، نمائندگی کے ساتھ ہی آپریٹ کررہا ہے اور 2021 میں منتخب اس کے نصف سینیٹرز کے حلف کی میعاد مارچ 2027 میں مکمل ہورہی ہے۔

کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سینیٹ موجودہ حالت میں ایک عبوری صدارتی آفیسر کے تحت تو چل سکتا ہے لیکن چیئرمین و نائب چیئرمین کا باقاعدہ تقرر نہیں کرسکتا۔ اس امر پر دوبارہ غور ضروری ہے کہ آئین، الیکشنز ایکٹ 2017 یا سینیٹ رولز آف پروسیجر میں ایسا کوئی نکتہ نہیں جو ایوان بالا کے ایسا کرنے کی راہ میں مزاحم ہو۔

یہ ایک افسوس ناک امر ہوگا کہ قانونی طور پر سینیٹ کی ’باقاعدہ‘ تشکیل کے باجود صوبے کے نصف نمائندگان اس اہم فورم سے غیر حاضر رہیں جس کو خاص طور پر صوبے کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا۔

امید کی جاسکتی ہے کہ پشاور ہائی کورٹ اور (اگر ضرورت ہو تو) سپریم کورٹ ان اہم نکات پر جلد حتمی فیصلہ دے سکیں، ایسا فیصلہ جو مستقبل کے لیے بھی اس نوعیت کے معاملات کی تشریح میں مددگار ثابت ہو۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں