اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ ایران کے حملے کے بعد کیا کارروائی کی جائے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے مندرجہ ذیل آپشنز میں سے کسی ایک یا زائد پر غور کیے جانے کے خدشات ہیں۔

فضائی حملے

اسرائیل کی جانب سے فضائی حملوں کی صورت میں جوابی کارروائی کیے جانے کا خدشہ ہے کیونکہ ایرانی دفاعی نظام کو کثیر جہتی نظام سے کم ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے، اسی کثیر جہتی نظام کو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے ہفتے کی رات تعینات کیا تھا۔

اس طرح کے حملے میں ایرانی کی اسٹریٹجک تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ہے جن میں پاسداران انقلاب کی بیسز یا جوہری تحقیقی مراکز شامل ہیں۔

سابق انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ اس سے شہری بنیادی ڈھانچے جیسے پاور پلانٹس کو نقصان پہنچنے کا امکان کم ہوگا، اور شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کی ضرورت ہوگی۔ اسرائیل، لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ یا شام اور عراق جیسے ممالک میں ایرانی اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

خفیہ آپریشنز

خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل نے اس سے قبل ایران کے اندر کئی خفیہ کارروائیاں کی ہیں، جن میں اس کے کئی سینئر جوہری سائنسدانوں کا قتل بھی شامل ہے۔ اگر اسرائیل جوابی کارروائی کرتا ہے تو ایک بار پھر ایران کے اندر اور باہر ایسی کارروائیاں کی جانے کا خطرہ ہے۔

سائبر حملے

ایران میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران پیٹرول اسٹیشنز سے لے کر صنعتی پلانٹس اور جوہری تنصیبات تک کے انفرااسٹرکچر پر متعدد سائبر حملے کیے گئے ہیں۔

اسرائیل کی طرف سے ایسا کوئی بھی حملہ انتہائی نظر آنے والے علاقوں جیسا کہ توانائی کی پیداوار یا پرواز کی خدمات میں مداخلت کر سکتا ہے۔

ایران کا اسرائیل پر حملہ

واضح رہے کہ 13 اپریل کی شب ایران نے اسرائیل پر تقریباً 300 ڈرون اور کروز میزائل فائر کیے تھے، جسے آپریشن ’ٹرو پرامس‘ کا نام دیا گیا ہے۔

حملے میں اسرائیلی دفاعی تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایرانی میڈیا کے مطابق یہ حملہ یکم اپریل کو اسرائیل کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں تھا جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں