اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے حصول کے حوالے سے فلسطین کی درخواست پر ووٹنگ آج ہو گی جہاں امریکا فلسطین کو اس رکنیت کے حصول سے روکنے کے لیے تیار ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اس پیشترفت سے باخبر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ امریکا کا ماننا ہے کہ فلسطینی عوام کے لیے ریاست کا درجہ حاصل کرنے کا سب سے تیز تر راستہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان امریکا اور دیگر شراکت داروں کی حمایت سے براہ راست مذاکرات ہیں۔

15 رکنی سلامتی کونسل ایک قرارداد پر آج ووٹنگ کرے گی جس میں 193 رکنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو تجویز دی گئی ہے کہ ریاست فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دی جائے۔

کونسل کی قرارداد کے حق میں کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے کی منظوری کے لیے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، روس یا چین میں سے کوئی بھی ملک قرارداد کو ویٹو نہ کرے۔

سفارت کاروں کا ماننا ہے کہ اس اقدام کو کونسل کے 13 ارکان کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، جو امریکا کو اپنا ویٹو کا حق استعمال کرنے پر مجبور کر دیں گے۔

امریکی اہلکار نے کہا کہ ہم بہت عرصہ قبل واضح کر چکے ہیں کہ امریکا اگر بہترین ارادوں کے ساتھ قبل از وقت اقدامات کرے تو بھی ہم فلسطینی عوام کے لیے ریاست کا درجہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔

فلسطینی اتھارٹی کو 2012 سے اقوامِ متحدہ میں غیر رکن مبصر کا درجہ تو حاصل ہے لیکن رکنیت نہیں دی گئی، سلامتی کونسل کے 193 میں سے 140 رکن ممالک فلسطین کو تسلیم کرچکے ہیں۔

فلسطین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے حصول کے ایک ایسے موقع پر دباؤ ڈالا ہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو 6ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کو تیزی سے بڑھا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ حالیہ کشیدگی اس بات کی اہمیت کو مزید دوچند کرتی ہے کہ اسرائیل اور مکمل طور پر آزاد، قابل عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست کے درمیان پائیدار امن کے لیے نیک نیتی کے ساتھ کی جانے والی کوششوں کی حمایت کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت میں ناکامی سے پورے خطے کے ان لاکھوں لوگوں کے لیے خطرہ بڑھے گا جو تشدد کے خطرے کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔

دوسری جانب باسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر گیلاد اردان نے کہا کہ فلسطینی اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کے معیار کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مستقل رکنیت کے لیے مستقل آبادی، متعین علاقہ، حکومت اور دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی صلاحیت جیسے عوامل کا ہونا بہت ضروری ہے۔

اسرائیلی سفیر نے سوال کیا کہ کونسل کس کو ’تسلیم کرنے‘ اور مکمل رکنیت کا درجہ دینے کے لیے ووٹ دے رہی ہے؟ غزہ میں حماس؟ نابلس میں فلسطینی اسلامی جہاد؟ عالمی ادارہ صحت؟۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے سے کسی بھی فریق پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور آنے والے سالوں میں اس سے صرف تباہی آئے گی اور مستقبل میں بات چیت کے کسی بھی امکان کو نقصان پہنچے گا۔

فلسطینی مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی سمیت اس تمام علاقے میں ایک ریاست چاہتے ہیں جس پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کر لیا تھا۔

صدر محمود عباس کی سربراہی میں فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے میں محدود اختیارات کی حامل ہے اور حماس نے 2007 میں غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں