’کیا قائم مقام صدر آرڈیننس پاس کرسکتے ہیں؟‘ نیب ترمیمی آرڈیننس کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2024 کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کرتے ہوئے درخواست پر اعتراضات دور کردیے ، درخواست گزار شہری ملک ناجی اللہ کی جانب سے وکیل محمد اظہر صدیق عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل اظہر صدیق نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ نئے ترمیمی آرڈیننس میں ریمانڈ کا دورانیہ 14 سے بڑھا کر 40 دن کردیا گیا، نئے ترمیمی آرڈیننس میں بدنیتی پر مقدمہ بنانے والے افسر کی سزا 5 سے گھٹا کر 2 سال کردی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نیب قوانین میں میں 3 بار ترامیم کر چکی ہے، اب یہ نیا ترمیمی آرڈیننس آگیا ہے جسے پارلیمنٹ میں بھی پیش نہیں کیا گیا، 14 دن سے زائد ریمانڈ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، بدنیتی پر مبنی جھوٹا مقدمہ بنانے والے افسر کی سزا صرف 2 سال کیوں کی گؒی ہے؟
وکیل نے کہا کہ نیب ریفرنسز کے ملزمان 14، 14 سال سزائیں بھگتے ہیں، یہ ایک ظالمانہ قانون ہے، ترمیمی آرڈیننس کو فوری طور پر واپس لینا چاہیے، چیف جسٹس پاکستان نے قرار دیا تھا کہ آرڈیننس کے ذریعے ایک شخص کی رائے پوری قوم پر مسلط کردی جاتی ہے۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا یہ جمہوریت کیخلاف نہیں؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا تھا کہ کیا یہ ضروری نہیں ہونا چاہیے کہ صدر آرڈیننس جاری کرتے ہوئے وضاحت بھی دے، یہ آرڈیننس بھی پارلیمنٹ لے جائے بغیر پاس کیا گیا، یہ قانونی کی منشا کے خلاف ہے۔
انہوں نے استدعا کی کہ قومی احتساب آرڈیننس 2024 کو آئین کی شقوں کے بر خلاف قرار دیا جائے اور اس کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کو سیاسی اور انتقامی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے، فریقین کو معلومات تک رسائی کے حق کے تحت مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کا بھی حکم دیا جائے۔
اس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا قائم مقام صدر آرڈیننس پاس کرسکتا ہے یا نہیں؟
بعد ازاں عدالت نے صدارتی آرڈیننسز سے متعلق سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں کو دیکھنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل و دیگر فریقین کو نوٹسسز جاری کر کے جوب طلب کرلیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت 6 اگست تک کے لئے ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے نیب ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔
25 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس 2024 کو چیلنج کردیا گیا تھا۔
انہوں نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نئے ترمیمی آرڈیننس میں ریمانڈ کا دورانیہ 14 سے بڑھا کر 40 دن کردیا گیا، نئے ترمیمی آرڈیننس میں بدنیتی پر مقدمہ بنانے والے افسر کی سزا 5 سے گھٹا کر 2 سال کردی گئی، پی ڈی ایم نیب قوانین میں میں 3 بار ترامیم کر چکی ہے۔
درخواستگزار کے مطابق اب یہ نیا ترمیمی آرڈیننس آگیا ہے جسے پارلیمنٹ میں بھی پیش نہیں کیا گیا، 14 دن سے زائد ریمانڈ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، بدنیتی پر مبنی جھوٹا مقدمہ بنانے والے افسر کی سزا صرف 2 سال کیوں؟
ان کا کہنا تھا کہ نیب ریفرنسز کے ملزمان 14، 14 سال سزائیں بھگتتے ہیں، یہ ایک ظالمانہ قانون ہے، ترمیمی آرڈیننس کو فوری طور پر واپس لینا چاہیے، چیف جسٹس پاکستان نے قرار دیا تھا کہ آرڈیننس کے ذریعے ایک شخص کی رائے پوری قوم پر مسلط کردی جاتی ہے۔
درخواستگزار نے مؤقف اپنایا کہ چیف جسٹس پاکستان نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا یہ جمہوریت کے خلاف نہیں؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا تھا کہ کیا یہ ضروری نہیں ہونا چاہیے کہ صدر آرڈیننس جاری کرتے ہوئے وضاحت بھی دے، یہ آرڈیننس بھی پارلیمنٹ لے جائے بغیر پاس کیا گیا، یہ قانونی کی منشا کے خلاف ہے۔
شہری نے استدعا کی کہ قومی احتساب آرڈیننس 2024 کو آئین کی شقوں کے برخلاف قرار دیا جائے اور قومی احتساب آرڈیننس 2024 کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کو سیاسی اور انتقامی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔
مزید اپیل کی کہ فریقین کو معلومات تک رسائی کے حق کے تحت مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔
یاد رہے کہ 27 مئی کو قائم مقام صدر و چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی منظوری سے 2 آرڈیننس جاری کردیے گئے تھے۔
نیب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے 2 اہم ترامیم کی گئی ہیں جس کے تحت نیب کے ریمانڈ کی مدت 14 دن سے بڑھا کر 40 دن کردی گئی ہے۔
نیب ترمیمی آرڈیننس کے مطابق مقدمے میں بدنیتی ثابت ہونے پر نیب افسران کی سزا 5 سال سےکم کرکے 2 سال کردی گئی ہے۔












لائیو ٹی وی