یہ نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہو، جسٹس منصور علی شاہ
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کرلیا تو اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے، یہ نہیں ہوسکتا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہو، اگر اس طرف چل پڑے تو آئینی توازن بگڑ جائے گا۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے اسلام آباد میں ’عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں درپیش چیلنجز پر قابو پانے‘ کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کہا گیا جو درست نہیں، میں سینئر ترین جج ہوں قائم مقام چیف جسٹس نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میرے دوست اور چیف جسٹس پاکستان ہیں، میں سینئر ترین جج ہی ٹھیک ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تندرست اور توانا ہیں اللہ پاک صحت دے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بالکل عمل درآمد ہوتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہو، یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی، اگر ایسا سوچا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد روایت نہیں بلکہ لازمی تقاضا ہے اور سپریم کورٹ کو یہ اتھارٹی کہیں اور سے نہیں بلکہ آئین سے حاصل ہوتی ہے، آئین کہتا ہے کہ یہ فیصلہ ہے اور اس پر عملدرآمد ہونا ہے، اور یہی طریقہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی نیا نظام لانا چاہتے ہیں تو بنالیں، معاملات اس طرح نہیں چلیں گے، یا پھر سارا اسٹرکچر تبدیل کردیں کچھ اور بنالیں، لیکن اس وقت جو آئین ہے اور اس کا جو اسٹرکچر ہے اس کے مطابق تو یہی ہوتا ہے۔
’یقین دلاتا ہوں اس فیصلے پر عملدرآمد کروائیں گے‘
انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق اس فیصلے کی عزت بھی کرنا ضروری ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے، کسی کے پاس چوائس نہیں ہے کہ وہ اس کو جج کرے کہ یہ فیصلہ ٹھیک ہے یا نہیں، یہ اختیار صرف اور صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے کہ اس نے جو فیصلہ کرلیا، اس کو تسلیم کرنا ہوگا، اور یہ اس ملک کا سسٹم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتے تو اس کے سنگین نتائج بھی ہیں، اگر اس پر عمل نہ کیا جائے، اور یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہم نے دیکھا ایک فیصلہ چل رہا ہے لیکن کافی وقت گزرنے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہورہا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو بھی ہم دیکھیں گے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میرے پاس اختیار ہوگا تو ہم اس فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کروائیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 96.3 فیصد مسلمان ہیں، ہندو 1.6 فیصد، کرسچن 1.6، باقی مذاہب ایک فیصد سے بھی کم ہے، اقلیت صرف تعداد کے لحاظ سے کم ہیں لیکن آئین میں انہیں مسلمانوں کے برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
’آئین تمام مذاہب کو عبادت کی اجازت دیتا ہے‘
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، پاکستان سے متعلق جو انٹرنیشنل رپورٹس آرہی ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں، عدلیہ میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام رہے ہیں، رانا بھگوان داس، رستم سہراب جی سدھوا سمیت بڑے ججز شامل رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے قرآن پاک سے رہنمائی لیتا ہوں، قرآن پاک کہتا ہے دین میں کوئی جبر نہیں ہے، رسول پاکﷺ نے مدینہ میں اقلیتوں کے حقوق یقینی بنائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے ساتھ مناسب رویے کا فیصلہ ہم مسلمانوں کو کرنا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ قرآن و سنت کے کیا احکامات ہیں اور ہم کس طرف جا رہے ہیں، آئین تمام مذاہب کو عبادت کی اجازت دیتا ہے، آئین میں واضح ہے کہ پاکستان سماجی انصاف اور شرعی اصولوں پر قائم جمہوری ملک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ مذہبی آزادی سب کو حاصل ہے، حضور پاکﷺ نے مسیحیوں کے چرچ کی زمین پر قبضہ کرنے سے روکا اور ان کو حقوق دیے، اسلام ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی تعلیم دیتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اسلام کے بعد آئین پاکستان بھی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، ہمارے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا، بابا گرونانک سمیت ہر مذہب کے رہنماؤں نے احترام و بردباری کی بات کی، سمجھ نہیں آتی کہ مذہبی انتشار اور غصہ کیوں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ’مبارک علی‘ کے مقدمہ میں اقلیتوں کے لیے 5 فیصد کوٹے کا تحفظ یقینی بنایا تھا، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بین المذاہب ہم آہنگی پر مباحثے کی ضرورت ہے، تمام مذاہب دوسرے مذاہب کو جگہ دیتے ہیں تو ان کے ماننے والے کیوں نہیں دیتے؟
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکمران اتحاد کو اس وقت دھچکا لگا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے 12 جولائی کو پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دے دیا تھا۔
یہ فیصلہ 13 رکنی بینچ نے سنایا اور اسے یوٹیوب پر لائیو سٹریم کیا گیا، اس سے ایک دن پہلے عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں سے انکار کے خلاف دائر اپیلوں کے ایک سیٹ پر سماعت ختم کرنے کے بعد اس معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
30 جولائی کو انتخابی قانون میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز بلال اظہر کیانی کی طرف سے پیش کیے گیئے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مقررہ وقت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اسے خواتین اور غیر مسلم امیدواروں کے لیے مخصوص نشستیں مختص نہیں کی جانی چاہیے۔
31 جولائی کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے والے متنازع بل کو سیاسی مبصرین کی طرف سے مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔