• KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 3:22pm

مذہبی گروہ اسلامی قوانین کا غلط استعمال کر رہے ہیں، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل

شائع August 30, 2024
ڈاکٹر راغب نعیمی: فائل فوٹو
ڈاکٹر راغب نعیمی: فائل فوٹو

اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا ہے کہ مذہبی تنظیمیں اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق اسلامی قوانین کا استعمال کرتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کا کہنا تھا کہ کسی بھی قانون میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے لیے سزائے موت نہیں ہے لیکن مذہبی عناصر مشتبہ افراد کو قتل کرنے کے لیے ہجوم کا سہارا لیتے ہیں، یہ نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ ملک کے قانون کے بھی خلاف ہے۔

سی آئی آئی کے دفتر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیمی نے کہا کہ توہین رسالت کے قوانین میں چار مختلف سزائیں ہیں، قرآن پاک کی بے حرمتی کی سزا عمر قید ہے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں اور صحابہ کرام (صحابہ کرام) کی توہین کرنے کی سزا 7 سال قید ہے جبکہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کی خلاف ورزی کی سزا 3 سال ہے۔

ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ قانون میں صرف اس شخص کے لیے سزائے موت ہے جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہو لیکن مذہبی گروہوں کا خیال ہے کہ چاروں جرائم کی سزا ایک جیسی ہے یعنی ’موت‘ اور وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔

ڈاکٹر راغب نعیمی نے بتایا کہ کسی کو توہین مذہب کے الزام میں کسی فرد کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے مذہبی عناصر کو سیاسی فائدے کے لیے عوامی جذبات سے کھیلنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

جب ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی کہ سی آئی آئی اشتعال انگیز بیانات جاری کرنے یا توہین مذہب پر عوام کو اکسانے والے علما کی شناخت اور انہیں تنہا کرنے میں ناکام رہی ہے چیئرمین نے اپنا حالیہ تجربہ بیان کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے چیف جسٹس آف پاکستان کی موت کا فتویٰ حرام قرار دیا تو اس کے فوراً بعد مجھے 500 کے قریب دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے، جن میں سے کچھ میں گالی گلوچ بھی کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی حلقوں میں موجود سمجھدار عناصر انتہا پسندوں سے خوفزدہ ہیں۔

سی آئی آئی نے بارہا کہا ہے کہ کسی کو قتل کرنے یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فتویٰ دینا غیر قانونی، غیر آئینی اور شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے،شریعت کسی فرد کو کسی دوسرے شخص کی جان لینے کا اختیار نہیں دیتی ہے۔

انہوں نے معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ بہت سے لوگ میڈیا کے ذریعے موصول ہونے والے پیغامات کے بعد جذباتی ہوجاتے ہیں لیکن وہ مذہبی معاملات کو ان کی حقیقی روح سے سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

یہ ہر لحاظ سے واضح ہے کہ توہین مذہب کے مرتکب پائے جانے والوں کو سزا دینے کا اختیار اور حق صرف ریاست کے پاس ہے۔

کارٹون

کارٹون : 10 دسمبر 2024
کارٹون : 9 دسمبر 2024