• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:28pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:52pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:55pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:28pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:52pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:55pm

عمران خان نے آرمی چیف پر الزام لگائے، چیف جسٹس کیخلاف بیان دیا، انہیں نتائج بھگتنا ہوں گے، بلاول بھٹو

شائع September 14, 2024
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
—فائل فوٹو: ڈان نیوز
—فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ رات قیدی نمبر 804 نے اپنے مبینہ بیان میں آرمی چیف کےخلاف سیاسی الزامات لگائے، چیف جسٹس کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیا، بانی پی ٹی آئی نے اگر یہ بیان دیا ہے تو انہیں اس کے نتائج کو بھگتنا ہوگا۔

ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اہم اجلاس جاری ہے جس کے آغاز پر پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے نو منتخب ایم این اے مخدوم طاہر رشید الدین نے حلف اٹھا لیا، ڈپٹی اسپیکر نے نو منتخب رکن اسمبلی سے حلف لیا جب کہ اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم پیش کیے جانے کا امکان ہے، عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ پیش کریں گے جس کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ رحیم یار خان کے عوام کا شکر گزار ہوں، رحیم یار خان کے عوام نے نفرت، تقسیم اور گالم گلوچ کی سیاست کوہرایا، طاہر رشیدالدین کو رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے پر مبارکباد دیتاہوں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو کامیاب کرایا، گالم گلوچ اور نفرت کی سیاست کو شکست ہوئی ہے، جنوبی پنجاب کی تنظیم کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں، یہ الیکٹیڈ ارکان میرے وہ سپاہی ہیں جو ڈرتے ہیں اور نہ ہی جھکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے سپاہی ہر فتنے کا مقابلہ کرسکتے ہیں، میں پیپلز پارٹی کی جنوبی پنجاب کی تنظیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنوبی پنجاب نے ووٹ کی طاقت سے ڈٹ کر جھوٹ کا مقابلہ کیا، ہم جمہوریت اور پارلیمنٹ کو فعال کرنا چاہتے ہیں، کیا ہارنے والے اپنی ہار ماننے کے لیے تیار ہیں۔

’فارم 45 اور 47 کے پروپیگنڈے پر بڑی کہانی سامنے آنے والی ہے‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت کو آگے لے کر بڑھنا ہے تو عوام کے فیصلے پر اعتماد کرنا پڑے گا، جمہوریت کی مضبوطی کیلئے عوام کے فیصلوں کو قبول کرنا ہوگا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ فارم 45 اور 47 کے پروپیگنڈے پر بڑی کہانی سامنے آنے والی ہے، جب حقائق سامنے آئیں گے تو یہ اپنا منہ عوام کو نہیں دکھاسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ قیدی نمبر 804 (عمران خان) نے آرمی چیف کےخلاف سیاسی الزامات لگائے، بانی پی ٹی آئی نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے ہر آئینی ادارے پر حملہ کیا، کل رات ایک بار پھر جمہوریت پر حملہ کیاگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے عوام قیدی نمبر 804 کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں، قیدی نمبر 804 نے اپنے بیان میں ریلیف لینے کے لیے ہر ادارے پر حملہ کیا ہے، تحریک انصاف سے اپیل ہے تحقیقات کریں کہ کیا واقعی یہ بانی پی ٹی آئی کا بیان ہے، بانی کے مبینہ بیان میں چیف جسٹس کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے اگر یہ بیان دیا ہے تو پھر ہمارے آئین و قانون کے مطابق اس کے نتائج ہیں اور ان نتائج کو ان کو بھگتنا پڑے گا اور پھر ان کی جماعت کا جو رونا دھونا ہوگا، اس پر وہ ہم سے اعتراض نہ کریں، عمران خان صاحب نے اگر یہ بیان دیا ہے تو جو مسئلے ان کے لیے، ان کی جماعت کے لیے بنیں گے اور خدانخواستہ ہمارے جمہوری نظام کے لیے بنیں گے، وہ ذمے دار ہوں گے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اگر یہ بیان عمران خان نے نہیں دیا تو پھر قائد حزب اختلاف یا ان کی جماعت کا چیئرمین وضاحت دے کہ یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ علی امین چلا رہے تھے، یا شیر افضل مروت چلا رہے تھے، ان سے پوچھیں کہ عمران خان کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے، یہ وضاحت دینا بہت ہی ضروری ہے، یہ جو الزامات لگے ہیں، یہ طریقہ کار اس وقت سے جاری ہے جب تحریک عدم اعتماد آئی، جب ہم نے آئینی، جمہوری قدم اٹھانا شروع کیا کہ عدالت، یا کسی اور ادارے کے فیصلے سے نہیں بلکہ اس ایوان کے ووٹ سے وزیراعظم کو ہٹائیں۔

انہوں نے کہا اس وقت کچھ لوگوں نے جو ادارے کے اندر موجود تھے اور کچھ جو اس جماعت کے اندر موجود تھے، انہوں نےایک سازش شروع کی، وہ سازش اقتدار پر قبضے کی جاری کوشش کا حصہ تھی جس کا پہلا حملہ ہماری تحریک عدم اعتماد کو رد کرنا اور آئین کو توڑنا تھا، دوسرا حملہ آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل الیکشن کرانے کی کوشش تھی، تیسرا حملہ تعیناتی کو متنازع بنانا تھا، مربوط کوششوں کے تحت میڈیا اینکرز لانچ کیے گئے، سیاست دان لانچ کیے گئے اور اپنے ہی آرمی چیف کے خلاف ایک سازش جاری تھی۔

بلاول بھٹو کی تقریر سے لگا جیسے ڈی جی آئی ایس پی آر کے دفتر میں پریکٹس کی، عمر ایوب

قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کی تقریر سے لگا جیسے انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے دفتر میں 2 دن پریکٹس کی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر بلاول بھٹو کی اچھی تربیت کر رہے ہیں۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی آج بھی اپنی ایک ایک بات پر کھڑے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے جو بات کی ہے اسے تسلیم کرتے ہیں، بانی پی ٹی آئی دوبارہ اس ایوان میں آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کو پی ٹی آئی اور بانی کے کیسز نہیں سننے چاہئیں، بلاول بھٹو نے میرے قائد سے متعلق جو بات کی اس کو مسترد کرتا ہوں اور اس کی مذمت کرتا ہوں۔

جس دن عمران خان نے سڑکوں پر آنے کا کہا تو لوگ بنگلہ دیش کو بھول جائیں گے، بیرسٹر گوہر

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس دن بانی پی ٹی آئی نے سڑکوں پر آنے کا کہا تو لوگ بنگلہ دیش کو بھول جائیں گے، ہم پاکستان کو روانڈا نہیں بنانا چاہتے، اگر ہم نے عوام کی نمائندگی کرنی ہے تو بھول جائیں کون اچھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کمیٹی میٹنگ میں کہا کہ ہمیں وی آئی پی کلچر نہیں چاہیے،اگر آگے بڑھنا ہے تو ایک قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑا تو ہٹیں گے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ خواجہ آصف نے نیلسن منڈیلا کی مثال دی، نیلسن منڈیلا نے بیوی کی قربانی دی اور عوام کے ساتھ کھڑا ہوا۔

انہوں نے کہا میں نے کہا کہ اگر آپ کمیٹی میں نہیں رہنا چاہتے تو سپیکر کو کہہ سکتے ہیں، ستر فیصد پاکستان پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتا ہے، اس دن سے ڈرو جب بانی پی ٹی آئی بھوک ہڑتال شروع کرے، ہماری جیت اور ہار کی جنگ میں پارلیمان ہار جائے گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ بلاول نے جس طرح بات کی یہ پارٹی چیئرمین کی موت ہے، وہ شاید آکسفورڈ کی جعلی ڈگری کرکے یہاں پہنچا، یہ لازم ہے کہ لائن کیھنچی جائے کہ یہ پارلیمنٹ مضبوط ہے یا کوئی اور مضبوط ہے، پارلیمنٹ میں ایک دن کا ساڑھے چھ کروڑ ہے صرف ایک سو پندرہ منٹ کی قانون سازی ہوئی، اس دوران صرف انہوں نے گالم گلوچ کیا۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کا بیٹا سپریم کورٹ کے گیٹ سے گرفتار ہوا ، شہاب الدین کو گھر سے اٹھایا گیا، پرویز اشرف کو کس نے وزیر اعظم بنوایا، ہم آگے بڑھنا چاہتے تھے، ہماری تلخ کلامی نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ وثوق کے ساتھ کہتا ہوں آپ کی حکومت میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں، خواجہ آصف کو کہا کہ دل کھول کر آپ کے ساتھ بیٹھیں ہیں، میں نے کہا ان معاملات کو حل کرنا چاہیے۔

فیض حمید عمران خان کیلئے گانا گا رہے ہوں کہ آجا بالم تیرا انتظار ہے، خواجہ آصف

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پنجاب نے تمام قوموں کو خوش آمید کہا، کبھی کسی ذمہ دار نے یہ نہیں کہا کہ ہم لشکر لیکر آپ پر حملہ آور ہوں گے،
پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں ہرقومیت کے لوگ بستے ہیں۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کی تجویز پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، کمیٹی کے پہلے اجلاس کا ماحول دیکھا تو احتجاج کیا۔

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں، میں نے جو پیشگوئی کی تھی وہ سچ ثابت ہوگئی، میرا مؤقف درست ثابت ہوا اور بانی پی ٹی آئی نے انتہائی متنازع ٹوئٹ کیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ایسے شخص کو آرمی چیف بنایا گیا جس نے ملک کو توڑا تھا، یحیٰ خان کو آرمی چیف ایوب خان نے بنایا تھا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ اگر کوئی کرپشن کے ثبوت دے تو اس پر الزام لگایاجاتاہے، جس رات اسمبلی توڑی گئی اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، اسمبلی توڑ کر آئین کو توڑا گیا، بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے پتا نہیں فیض حمید کون سا گانا گارہے ہوں گے، ہوسکتا ہے فیض حمید گانا گارہے ہوں کہ آجا بالم تیرا انتظار ہے، اس قسم گانا وہ گا رہے ہوں، وہ کیا کہہ رہے ہیں، ان ہی کے ذریعے دھرنا دلوایا گیا۔

’یہ اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈ جنرل عاصم منیر کے پاؤں میں گرنا چاہتے ہیں، پھر ٹوئٹ بھی کرتے ہیں‘

خواجہ آصف نے کہا کہ خواہشوں پر کوئی پابندی نہیں جو مرضی کہیں، یہ دوغلی پالیسی ہے ان کی کوئی ساکھ نہیں، ابھی بھی علی امین گنڈاپور کے ذریعے ڈبل گیم ہو رہی ہے، اسٹیبلمنٹ سے متعلق ان کے یہ خیالات ہیں لیکن ہم نے بات نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اسٹیبلمشنٹ سے بات کروں گا، ان کا قبلہ جی ایچ کیو پنڈی ہے، ان کا سیاسی قبلہ یہ پارلیمنٹ ہونی چاہیے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ اگر یہ باتیں جو انہوں نے آج ٹوئٹ میں درج کی ہیں تو پھر اسٹیبلمشنٹ سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں، جنرل عاصم منیر اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈ ہیں، ان کے پاؤں میں گرنا چاہتے ہیں اور پھر ٹوئٹ بھی کرتے ہیں، پاکستان کی سیاست میں بڑی بڑی دو نمبر ہوئی، اس سے بڑی دو نمبر نہیں ہوئی، نہیں کہتا کہ پاکستان کی سیاست بہت پاک تھی، ہم سے بہت غلطیاں ہوئیں، انہوں نے قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق انہوں نے کیسی کیسی باتیں کیں، ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا، پھر ان سے معافی مانگی کہ زیادتی ہوئی، ریفرنس فائل نہیں ہونا چاہیے تھا، ساتھ ساتھ گالیاں اور ساتھ مذاکرات اور صرف ان سے، یہ زیادہ دن نہیں لگیں گے یہ پھر وہی گانا گائیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں۔

’اتنی تابعداری تو آرمی کی ان کے اپنے ما تحت بھی نہیں کرتے جتنی انہوں نے کی‘

انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلمشنٹ نے جلسہ ملتوی کرنے کا پیغام بھیجا تھا جو کہ میں نہیں مانتا، اگر پیغام بھیجا بھی تھا تو اتنی تابعداری، پانچ منٹ نہیں لگے کہ جیل کھل گئی اور جلسہ ملتوی ہوگیا، اتنی تابعداری تو آرمی کی ان کے اپنے ما تحت بھی نہیں کرتے جتنی انہوں نے کی اور آج ان کے خلاف ٹوئٹ کر رہے ہیں، ان کا پتا نہیں چلتا کہ آج خلاف ٹوئٹ کی، کل منت ترلا شروع کردیں، یہ تصدیق کرائیں کہ انہوں نے ٹوئٹ کی یا ان کی طرف سے کسی نے ٹوئٹ کی، یہ ان کے ہی فائدے کی بات ہے، یہ جس راستے پر چل نکلے ہیں، میرا نہیں خیال کہ واپسی کا راستہ ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جو بیج بوئے، اس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے، یہ خیبرپختونخوا میں نفرتوں کی آگ بھڑکا رہے ہیں، ڈر ہے خدانخواستہ یہ خیبرپختونخوا میں علیحدگی کی تحریک نہ چلا دیں، کوئی صوبہ دوسروں پر لشکر کشی کی بات نہیں کرتا، جلسوں میں جو گفتگو کی گئی وہ علیحدگی پسندوں کی زبان ہے۔

کیا کوئی محب وطن اپنے اداروں کو بے توقیر اور متنازع کرسکتا ہے؟ راجا پرویز اشرف

پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی اورسابق وزیراعظم راجا پرویزاشرف نے کہا کہ کل ایک ایسے شخص نے ٹوئٹ کیا ہے جو اس ملک میں جمہوریت، آئین، امن، پارلیمانی کی بالادستی نہیں چاہتا بلکہ اس ملک کی تباہی اوربربادی چاہتا ہے، پاکستان کے 25 کروڑ عوام اپنی فوج، آرمی چیف اور چیف جسٹس کے ساتھ کھڑی ہے۔

راجا پرویزاشرف نے کہا کہ ہاؤس کا تقدس اور عزت و توقیر ہونا چاہیے، یہ عزت اس وقت ہوگی جب ہم دل سے تسلیم کریں کہ یہ پاکستان کاسب سے بڑا اور سپریم ادارہ ہے، آج چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جو باتیں کی ہیں اوراس پر اپوزیشن لیڈر کا جو ردعمل آیا ہے وہ بلا جواز تھا، گزشتہ تین چار روز سے ایوان میں جو باتیں ہوئیں اس سے امید پیدا ہو گئی تھی کہ حالات شائد بہتری کی طرف جا رہے تھے۔

رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ چیئرمین نے صرف بانی پی ٹی آئی کے بیان کی وضاحت مانگی ہے اس پر اپوزیشن لیڈر کو وضاحت کرنا چاہیے تھی، میں بھی سمجھتا ہوں کہ یہ ٹوئٹ ایک ایسے فرد نے کی ہے جو اس ملک میں جمہوریت، آئین، امن، پارلیمانی کی بالادستی نہیں چاہتا بلکہ اس ملک کی تباہی اوربربادی چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیاکوئی محب وطن ایسا ٹوئٹ کر سکتاہے اور اپنے اداروں کو متنازع بنا سکتا ہے، خدا کا خوف کرنا چاہیے سب سے پہلے پارٹی قائد کے ساتھ نہیں بلکہ ملک کے ساتھ وفاداری کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جس ڈگر پر چل رہی ہے وہ تباہی اور بربادی کی طرف جارہی ہے، اس سے ملک اورپارلیمان کونقصان ہوگا، ان کا چئیرمین لوگوں کو مونچھوں سے پکڑ کر جیلوں میں ڈالنے کی بات کرتے تھے، اس ملک کی سیاست کوپراگندہ کردیا گیاہے، یہ لوگ سیاست کوگندہ کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نفرتیں بیچنے اورپھیلانے والے لوگ ہیں، اچکزئی صاحب بتائے کہ ان رویوں سے آئین، قانون اور پارلیمان مضبوط ہوسکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے بازوشمشیرہیں، ان لوگوں نے ہماری شہیدوں کی توہین کی ہے اوریہ خود کوپاکستانی بھی کہتے ہیں، جی ایچ کیو، کور کمانڈر کے گھروں پر حملوں سے بھارت کوخوش کردیا گیا ہے۔

راجا پرویز اشرف کو کہا کہ پاکستان کے 25کروڑ عوام اپنی فوج، آرمی چیف اورچیف جسٹس کے ساتھ کھڑی ہے، یہ لوگ کس کی زبان بول رہے ہیں، انہوں نے یہ لوگ اتفاق رائے، پاکستان، جمہوریت، پارلیمان اور پاکستان کے عوام کے دشمن ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اداروں کے خلاف بولتے ہیں، امیر مقام

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر کشمیر و گلگت بلتستان انجینئر امیر مقام نے کہا کہ صوبہ میں امن کے لیے ہم قربانیاں دی ہے اورکسی کو ان قربانیوں کوسبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، خاکی وردی والوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں صوبہ کے لیے قربانیاں دیں اور امن قائم کیا۔

انجینئر امیر مقام نے کہا کہ کل رحیم یار خان اور اس سے پہلے باجوڑ میں تحریک انصاف کو شکست ہوئی ہے، پارلیمان میں ہونے والے واقعہ کی سب نے مخالفت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمر ایوب کے ساتھ میرا تعلق اور واسطہ رہا ہے، میں مشرف کے ساتھ تھا اور انہوں نے مجھے عزت دی ہے مگر میں نے کبھی بھی ان کے خلاف بات کی ہے اور نہ گالی دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں وزارت چھوڑکر مسلم لیگ (ن) میں آیا ہوں، جنرل (ر) مشرف کی فوتگی پر میں ان کی نماز جنازہ میں گیا ہوں مگر اپوزیشن لیڈر جن جماعتوں میں رہے ہیں، انہی سیاسی قیادت کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے دورمیں میرے، میرے خاندان سمیت مسلم لیگ (ن) کے خلاف مسلسل انتقامی کارروائیاں کی گئی ہے، اس وقت خیبرپختونخوا میں جوکچھ ہورہاہے، وہاں ملک کے خلاف جو ہو رہا ہے وہ افسوسناک ہے، سب سے زیادہ کرپشن خیبرپختونخوا میں ہو رہی ہے، جنگلات سے لیکر گندم اور پوسٹنگ و ٹرانسفرز تک رشوتیں اور کرپشن کا بازار گرم ہے، جن لوگوں نے سچ بولنے کی ہمت کی انہیں پارٹی سے نکالا گیا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی سے خود بات کرنے سے پہلے بھی حالات خراب ہوئے تھے، وزیراعلیٰ وفاق کو چیلنج کر رہا ہے، وزیراعلی کے اپنے ضلع میں لوگ شام کے بعد گھروں سے نہیں نکل سکتے، اپنی ناکامیوں کوچھپانے کے لیے یہ اداروں پرحملہ آور ہو جاتے ہیں، پولیس کو اداروں کے خلاف اسٹرائیک پر اکسایا جارہا ہے، یہ خطرناک صورتحال ہے، یہ لوگ پشتونوں کے تشخص کونقصان پہنچارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان پر چار خودکش حملے ہوئے ہیں، میرا بھائی شہید ہواہے مگر ہم ڈٹ کربات کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مریم نوازشریف کے خلاف جوباتیں کی گئی وہ قابل مذمت ہے، ماؤں، بہن اور بیٹیوں کااحترام کرنا چاہیے، گنڈاپور ہماری لاشوں کوکراس کرکے پنجاب جاسکتے ہیں۔

یہ صوبوں کا اختیار ہے کہ وہ زیر اختیار کمپنیوں کی نجکاری کریں یا جاری رکھیں، مصدق ملک

توانائی کے وزیر مصدق ملک نے کہا کہ حکومت پاکستانی منرلز ڈیولپمنٹ کارپوریشن سمیت خسارے میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کی بتدریج نجکاری کا ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے پاکستان منرلز ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی مجوزہ نجکاری کے حوالے سے اسد قیصر اور دیگر ارکان کے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی ایم ڈی سی میں دوہزار ملازمین ہیں اور ان میں سے کوئی بھی کان کنی نہیں کر رہا۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ صوبوں کا اختیار ہے کہ وہ زیر اختیار کمپنیوں کی نجکاری کریں یا جاری رکھیں۔

حنیف عباسی کی تقریر کے دوران اپوزیشن کا ہنگامہ، اجلاس کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی

قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک وزیراعظم پھانسی چڑھ گیا، ایک تین مرتبہ جلاوطن ہوا، ایک شہید ہوئی، آج تک کسی سیاسی پارٹی نے فوج اور عدلیہ پر حملہ نہیں کیا، کسی نے پاکستان کے اداروں کو للکار کر فیڈریشن کو نہ ماننے کی بات نہیں کی، اسی کے تانے بانے بانی پی ٹی آئی سے مل رہے ہیں۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ جو کل تک فرعون تھا، آج رو رہا ہے، پاکستان کی 25 کروڑ عوام کسی غدار وطن کے ساتھ نہیں کھڑی نہیں، پاکستانی قوم فیصلہ کر چکی ہے کہ فیڈریشن قائم و دائم رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک وزیراعلی کی کیسے جرات ہوئی وہ کسی ملک سے بات کرے، ہمیں اقتدار ملے یا نہ ملے ہم ملک کو تعصب کی آگ میں نہیں ڈالنا چاہتے۔

حنیف عباسی کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے ہنگامہ کیا، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دیا۔

رپورٹس کے مطابق آج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس آج شام صرف ایک گھنٹے کے وقفے کے ساتھ طلب کیے گئے ہیں، پارلیمنٹ کا ہفتے کے آخر میں اجلاس بلانا غیر معمولی ہے کیونکہ عام طور پر بجٹ سیشن یا کسی حساس مسئلے کے لیے اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔

اگرچہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے باضابطہ طور پر جاری کیے گئے ایجنڈے میں ترمیم کا کوئی ذکر شامل نہیں ہے، لیکن اس طرح کی چیزیں عام طور پر ایک ضمنی ایجنڈے کے حصے کے طور پر ایوان کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔

آج ہونے والے خصوصی اجلاس کے لیے جمعے کے روز جاری کردہ ایجنڈہ ہی جاری کیا گیا ہے جہاں ایجنڈے میں آئی پی پیز کو کیپسٹی پیمنٹ ادائیگیوں سے متعلق ایم کیو ایم کا توجہ دلاؤ نوٹس شامل ہے جبکہ اس کے علاوہ ایجنڈے میں پاکستان ترقی معدنیات کارپوریشن کی مجوزہ نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس بھی شامل ہے۔

حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے اراکین کو وفاقی دارالحکومت میں ہی رہنے کی ہدایت کررکھی ہیں تاکہ قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں میں ان کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

پیپلزپارٹی کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی پی پی کی ایم این اے نفیسہ شاہ جمعہ کو اپنے والد سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی سالگرہ منانے کے لیے اپنے آبائی شہر جانا چاہتی تھیں، لیکن انہیں وفاق سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

وزیراعظم کے مشیر وزارت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے گزشتہ روز یہ دعویٰ کیا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بل آج (ہفتہ) کو پیش کیا جائے گا، میرے خیال میں اسے پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حکومت کو قانون سازوں کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اپنا ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد دونوں ایوانوں کو اجلاس طلب کیا گیا ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی بل کی منظوری سے مستفید ہوں گے، بیرسٹر عقیل نے کہا کہ جب کوئی قانون سازی آئین کا حصہ بن جاتی ہے تو اس کا اطلاق تمام متعلقہ افراد پر ہوتا ہے، تاہم ان کی حالیہ وضاحت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قانون میں کسی ایک شخص کے لیے تبدیلی میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے آن بورڈ تھے۔

حکومت کو قومی اسمبلی میں مزید 13 ارکان کی حمایت درکار

آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی ارکان اسمبلی کی منظوری درکار ہے، یعنی 336 کے ایون میں سے تقریباً 224 ووٹ درکار ہیں، تاہم ابھی تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں کم از کم ایک درجن ووٹوں کی کمی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے حکومتی بنچوں پر 211 ارکان موجود ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) کے 110، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم پاکستان کے 22 ارکان شامل ہیں۔

اس کے علاوہ حکومتی ارکان میں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے 4،4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 1،1 رکن بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر 101 ارکان ہیں، سنی اتحاد کونسل کے 80 اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان کے ساتھ 88 ارکان اسمبلی، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 8 جب کہ بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔

سینیٹ میں حکومت کو مزید 9 ارکان کی حمایت درکار

آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو سینیٹ میں 63 ووٹوں کی ضرورت ہے تاہم ایوان بالا میں حکومتی بینچز پر 54 ارکان موجوود ہیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور ایم کیو ایم کے 3، ارکان شامل ہیں، یعنی حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔

اعلیٰ ایوان کی اپوزیشن بنچز پر پی ٹی آئی کے17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے، اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔

تاہم حکومتی ذرائع نے آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ کیا ہے تاہم آئنی ترمیم پیش کیے جانے کے حوالے سے حکومتی رہنماؤں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کی راہداری میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترامیم پیش کریں گے اور ہمارے پاس آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب وزیر قانون نے کل کوئی بھی آئینی ترمیم نہ لانے کا دعویٰ کردیا جبکہ نائب وزیر اعظم نے بھی اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کردیا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں وزیر قانون نے کہاکہ حکومت کل کوئی آئینی ترمیم نہیں لا رہی۔

آئینی ترمیم پیش کیے جانے کے حوالے سے سوال پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فی الحال جو اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کا مسئلہ پڑا ہوا ہے اس پربات چیت ہورہی ہے۔

اس بارے میں جب نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہاکہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں۔

اس بارے میں جب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر ججوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرنی ہے تو پھر یہ کسی ایک جماعت کا فیصلہ نہیں ہو سکتا بلکہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی طے کرے گی کہ اس حوالے سے کیا کرنا ہے۔

تاہم اہم حکومتی اراکین کی تردید کے باوجود باوثوق ذرائع نے دعویٰ کیا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں ججز کی مدت ملازت میں توسیع کے حوالے سے آئینی ترمیم پیش کی جائے گی اور اس حوالے سے حکومت کے نمبر بھی پورے ہیں۔

دو تہائی اکثریت کے لیے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 14 اکتوبر 2024
کارٹون : 13 اکتوبر 2024