ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کیساتھ جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار یوکرین کو قرار دے دیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے ساتھ جنگ شروع کرنے کا الزام یوکرین پر عائد کر دیا۔
بی بی سی نیوز کے مطابق ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے اس بیان کے بعد یوکرین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ حیران کن ہے کہ ان کے ملک کو روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے سعودی عرب میں مذاکرات کے لیے مدعو نہیں کیا گیا‘۔
امریکی صدر نے یہ کہتے ہوئے کہ وہ یوکرین کے رد عمل سے مایوس ہیں ، انہوں نے جنگ شروع کرنے کے لیے یوکرین کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ یوکرین جنگ بندی کا معاہدہ پہلے ہی کر سکتا تھا۔
روس کے حملے نے تقریباً 3 سال قبل یوکرین میں جنگ کو جنم دیا تھا۔
اس سے قبل منگل کے روز روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ریاض میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کی تھی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان حملے کے بعد پہلی بار اعلیٰ سطح پر بات چیت ہوئی تھی، اور جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے لیے ٹیمیں مقرر کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
لاروف نے کہا کہ ان کا ملک کسی بھی امن معاہدے کے تحت یوکرین میں نیٹو ممالک کے امن دستوں کو قبول نہیں کرے گا، یہ تجویز پیر کو پیرس میں نیٹو کے یورپی ارکان کے اجلاس میں پیش کی گئی تھی۔
یورپی نیٹو ریاستیں، جو روس کے خلاف یوکرین کی حمایت کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ٹرمپ کے یکطرفہ امن اقدام سے نظرانداز کیے جانے پر ’ہوشیار‘ ہوچکی ہیں، جس نے صدر کے طور پر ان کے پیش رو، جو بائیڈن کی یوکرین نواز پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس سے قبل کہا تھا کہ یوکرین نہیں چاہتا کہ ریاض میں امریکا اور روس کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے باہر کیے جانے کے بعد لوگ اپنی پیٹھ پیچھے رہ کر فیصلے کریں۔
مار لاگو میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ سے بی بی سی نیوز نے پوچھا کہ یوکرین کے لوگوں کے لیے ان کا پیغام کیا ہے جو خود کو دھوکا دہی کا شکار محسوس کر سکتے ہیں؟
اس کے جواب میں امریکی صدر نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ وہ سیٹ نہ ہونے پر پریشان ہیں، ٹھیک ہے، ان کے پاس 3 سال اور اس سے پہلے ایک طویل عرصے سے نشست ہے، یہ معاملہ بہت آسانی سے طے کیا جا سکتا تھا، آپ کو یہ جنگ کبھی شروع نہیں کرنی چاہیے تھی، آپ ایک معاہدہ کر سکتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں یوکرین کے لیے ایک معاہدہ کر سکتا تھا، اس سے انھیں تقریباً ساری زمین، سب کچھ، تقریباً ساری زمین مل جاتی، اور کوئی بھی آدمی قتل نہ ہوتا، اور نہ ہی کوئی شہر مسمار کیا جاتا۔
ریاض میں امریکی اور روسی وفود کی ملاقات کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ وہ ’زیادہ پراعتماد‘ ہیں، روسی بہت اچھے تھے، روس کچھ کرنا چاہتا ہے، وہ وحشیانہ بربریت کو روکنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں میرے پاس اس جنگ کو ختم کرنے کی طاقت ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا یوکرین میں انتخابات کے انعقاد کے روسی مطالبے کی حمایت کرے گا؟ تو انہوں نے یوکرین میں انتخابات کے انعقاد کے بعد کے عرصے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ٹرمپ نے کہا کہ کیا یوکرین کے لوگوں کا کوئی موقف نہیں ہوگا؟ جہاں انتخابات ہوئے ایک طویل عرصہ ہو چکا ہے۔
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2019 میں 5 سال کی مدت کے لیے منتخب ہونے والے زیلنسکی کی مقبولیت میں 4 فیصد کمی آئی ہے۔
زیلینسکی اس عہدے پر برقرار ہیں، جب کہ تنازع کے آغاز کے بعد ملک میں مارشل لا نافذ ہے۔
دسمبر میں ہونے والے ایک رائے عامہ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ سروے میں شامل 52 فیصد یوکرینی شہریوں نے کہا کہ وہ زیلنسکی پر اعتماد کرتے ہیں۔
دریں اثنا، یورپی ممالک کی جانب سے یوکرین میں فوجی بھیجنے کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں، تو یہ بہت اچھا ہے، میں اس کے لیے تیار ہوں، تاہم، انہوں نے امریکی فوجیوں کی ممکنہ تعیناتی کے بارے میں کہا کہ میں وہاں کسی کو بھی تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، کیوں کہ آپ جانتے ہیں، ہم بہت دور ہیں۔
پیر کے روز پیرس میں ہونے والے اجلاس کے بعد برطانوی وزیر اعظم سر کیئر اسٹارمر نے کہا تھا کہ یوکرین کے کسی بھی امن معاہدے کے لیے روس کو اپنے ہمسایہ ملک پر دوبارہ حملہ کرنے سے روکنے کے لیے ’یو ایس بیک اسٹاپ‘ کی ضرورت ہوگی۔
سر کیئر نے کہا تھا کہ روس کو مؤثر طریقے سے روکنے کا واحد راستہ امریکی سلامتی کی ضمانت ہے، اور انہوں نے اگلے ہفتے واشنگٹن میں ٹرمپ کے ساتھ امن معاہدے کے اہم عناصر پر تبادلہ خیال کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
ریاض میں ہونے والی بات چیت میں مشرق وسطیٰ میں امریکی سفیر اسٹیو وٹکوف اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کے علاوہ روسی صدارتی معاون یوری اوشاکوف اور روس کے خودمختار دولت فنڈ کے سربراہ کریل دمتریف بھی موجود تھے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ماسکو کسی بھی امن معاہدے کے تحت یوکرین میں نیٹو ممالک کے امن دستوں کو تعینات کرنے پر راضی نہیں ہوگا، لاوروف نے کہا کہ کسی دوسرے جھنڈے تلے مسلح افواج کی موجودگی سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا، یقیناً یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور روس جلد از جلد ایک دوسرے کے ممالک میں سفیر مقرر کریں گے اور تعاون کو مکمل طور پر بحال کرنے کے لیے حالات پیدا کریں گے، یہ ایک بہت مفید گفتگو تھی. ہم نے ایک دوسرے کی بات سنی اور سمجھی۔
انہوں نے روس کے سابق موقف کا اعادہ کیا کہ نیٹو دفاعی اتحاد میں توسیع اور یوکرین کی اس میں شمولیت روس کے لیے ’براہ راست خطرہ‘ ہوگی۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ روس اس کے خاتمے کے لیے ’سنجیدہ عمل شروع کرنے کے لیے تیار ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ تمام فریقوں کی جانب سے رعایتیں دی جانی چاہئیں، ہم پہلے سے طے نہیں کریں گے کہ وہ کیا ہیں، ایک طویل اور مشکل سفر کا پہلا قدم ہے، لیکن یہ ایک انتہائی اہم قدم ہے۔
روبیو نے کہا کہ یورپی یونین کو کسی نہ کسی موقع پر مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا، کیوں کہ ان پر پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں، اجلاس میں یوکرین کی عدم موجودگی کے بارے میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس تنازع میں ملوث ہر شخص کو اس کے ساتھ ٹھیک ہونا چاہیے، یہ ان کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔’
پیرس میں ہونے والے مذاکرات، جو ٹرمپ کی قیادت میں روس اور امریکا کے درمیان بظاہر مفاہمت کے جواب میں عجلت میں منعقد کیے گئے تھے، ایک متحد موقف سے متفق نہیں تھے۔
جرمنی کے چانسلر اولف شولز نے کہا ہے کہ یوکرین میں فوج بھیجنے کے بارے میں بات چیت ’مکمل طور پر قبل از وقت‘ ہے۔
پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے بھی کہا کہ وہ فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتے، جب کہ اٹلی کے جارجیا میلونی نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے پیرس میں اجلاس کو بتایا کہ یورپی فوجیوں کی تعیناتی یوکرین میں امن کو یقینی بنانے کا سب سے پیچیدہ اور کم سے کم مؤثر طریقہ ہوگا۔
دوسری جانب یوکرین کے رہنما ترکی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ریاض اجلاس پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے تھکے ہوئے اور پریشان دکھائی دے رہے تھے۔
زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سب کچھ منصفانہ ہو اور کوئی بھی ہماری پیٹھ کے پیچھے کوئی فیصلہ نہ کرے، آپ یوکرین کے بغیر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یوکرین میں جنگ کو کیسے ختم کیا جائے۔
یوکرینی صدر ریاض میں امریکی اور روسی دونوں کے چہروں پر مسکراہٹوں سے خوفزدہ تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے بہت کم کر سکتے ہیں۔
یوکرین کے صدر کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ان کے ملک میں امریکی مدد کے بغیر روسی فوجیوں کو شکست دینا تو دور کی بات ہے، مزاحمت کے امکانات بہت کم ہیں۔