• KHI: Clear 17.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.9°C
  • KHI: Clear 17.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.9°C

مصطفیٰ قتل: ارمغان عدالت میں گر پڑا، ریمانڈ میں توسیع، پولیس کو واردات کا مقام دکھادیا

شائع February 22, 2025
عدالت نے ملزم سے استفسار کیا کہ کیا یہ آپ کے وکیل ہیں؟، جس پر ارمغان نے کہا کہ نہیں یہ میرے وکیل نہیں ہیں
— فائل فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے ملزم سے استفسار کیا کہ کیا یہ آپ کے وکیل ہیں؟، جس پر ارمغان نے کہا کہ نہیں یہ میرے وکیل نہیں ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی سے نوجوان مصطفیٰ عامر کو اغوا کے بعد قتل کرنے کے کیس کا مرکزی ملزم ارمغان ایک بار پھر کمرہ عدالت میں گرگیا، انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے ملزم ارمغان اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں 5 دن کی توسیع کر دی۔

ڈان نیوز کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ اور اے ٹی سی کورٹ ٹو میں بھی ملزم ایسے ہی گر گیا تھا، جب ملزم کا میڈیکل کرایا تو بالکل فٹ تھا۔

ملزم ارمغان نے الزام لگایا کہ مجھے کھانا بھی نہیں دیا جارہا ہے، ملزم ارمغان کی والدہ کی جانب سے طاہر رحمان تنولی نے وکالت نامہ پیش کر دیا۔

عدالت نے ملزم سے استفسار کیا کہ کیا یہ آپ کے وکیل ہیں؟، جس پر ملزم نے کہا کہ نہیں یہ میرے وکیل نہیں ہیں، پہلے بھی مجھ سے دھوکے سے دستخط کرایا گیا تھا۔

ملزم ارمغان اور ملزم شیراز کی جانب سے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

ملزم شیراز کے وکیل خرم عباس نے کہا کہ میرے موکل کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، ملزم شیراز کا یوٹیوبر انٹرویو کر رہے ہیں، مگر وکیل سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے، بغیر لیڈی پولیس کے ملزم شیراز کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔

وکیل نے کہا کہ شیراز کے بہن کا لیپ ٹاپ بھی پولیس ساتھ لے گئی ہے، ملزم شیراز کا جسمانی ریمانڈ نہ دیا جائے۔

مصطفیٰ قتل کیس کی سماعت کرنے والی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے دونوں ملزمان ارمغان اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں 5 دن کی توسیع کرتے ہوئے دونوں کا طبی معائنہ کروانے اور رپورٹ جمع کروانےکا حکم بھی دیا۔

پولیس ٹیم کا ملزمان کیساتھ جائے وقوعہ کا دورہ

کراچی میں ڈیفنس کے رہائشی مصطفیٰ عامر کے اغوا و قتل کیس میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے، گرفتار ملزمان ارمغان اور شیراز نے مصطفیٰ عامر کو گاڑی سمیت جلانے کے مقام کی نشاندہی کر دی۔

ڈان نیوز کے مطابق اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) اور حب پولیس کی ٹیمیں گزشتہ شب ملزموں کو لے کر دریجی گئی تھیں، اس دوران مقتول مصطفیٰ عامر کے رشتہ دار بھی پولیس کے ساتھ موجود تھے۔

پولیس کی ٹیم کو ملزمان نے بیان دیا کہ ہم ہمدرد یونیورسٹی کے راستے ساکران گئے، جہاں سے شاہ نورانی کے راستے دریجی اور پھر لینڈا نیندی میں ویران مقام تک پہنچے،

اے وی سی سی کی ٹیم کی سربراہی ڈی ایس پی حیدر مسعود اور حب پولیس ٹیم کی قیادت ڈی ایس پی محمد جان ساسولی کر رہے تھے۔

ڈان نیوز نے دونوں ٹیموں اور ملزمان کی جائے وقوع پر موجودگی کی تصاویر بھی حاصل کرلی ہیں۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا۔

بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا تھا کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025