ٹرمپ انتظامیہ کا ویزوں کی منسوخی جاری رکھنے کا اعلان، امریکی جامعات میں صدمے کی لہر
ویزا منسوخی، حراست اور ملک بدری کی بڑھتی ہوئی لہر نے امریکی کیمپسز میں صدمے کی لہر پیدا کردی ہے جس کے باعث غیر ملکی، بالخصوص فلسطین نواز سرگرمیوں سے وابستہ طلبہ کو بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وہ دن جب غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں نے امریکا بھر کے کیمپسز میں مظاہروں کو جنم دیا تھا، اب ماضی کی بات بن چکے ہیں، آج یونیورسٹیز کو ایک نئی حقیقت کا سامنا ہے جہاں معمولی خلاف ورزیاں بھی طلبہ کے ویزوں کی منسوخی کا سبب بن سکتی ہیں۔
سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں کہا تھا کہ انہوں نے تقریباً 300 افراد کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر ایسا کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ایک حالیہ بریفنگ میں جارحانہ کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ محکمہ خارجہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور اپنی کمیونٹی کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر روز ویزے منسوخ کرتا ہے اور ہم ایسا کرنا جاری رکھیں گے۔
جب محکمہ خارجہ کے ترجمان سے امریکا میں پناہ لینے والے کمزور افراد جیسے خانہ جنگی سے متاثرہ جنوبی سوڈان کے شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے مزید دوٹوک انداز میں کہا کہ ہر ملک کو اپنے شہریوں کی بروقت واپسی کو قبول کرنا چاہیے جب امریکا سمیت کوئی دوسرا ملک انہیں نکالنے کی کوشش کرے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی سوڈان کی عبوری حکومت اس اصول کا مکمل احترام کرنے میں ناکام رہی ہے اور کسی ایسے شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جس کی انہوں نے تصدیق کی تھی اور اسے دستاویزی طور پر شہری قرار دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا محکمہ جنوبی سوڈان کے شہریوں کو امریکا میں داخلے سے روکنے کے لیے ویزوں کے مزید اجرا کو محدود کرے گا، انہوں نے کہا کہ ’جنوبی سوڈان نے مکمل تعاون کیا تو ہم ان اقدامات کا جائزہ لیں گے‘۔
بدھ کے روز امیگریشن حکام نے اعلان کیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیں گے اور ایسے افراد کو ویزا یا رہائشی اجازت نامے دینے سے انکار کریں گے جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ یہود مخالف مواد پوسٹ کرنے کا مرتکب تصور کرے گی۔
یہ اقدام طلبہ کے ویزوں کی منسوخی کے بعد اٹھایا گیا ہے، حالانکہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار کی ضمانت دیتی ہے۔
مارکو روبیو نے کہا تھا کہ غیر امریکی شہریوں کو امریکیوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہیں اور ویزا جاری کرنا یا انکار کرنا ججز کی صوابدید پر نہیں بلکہ ان کی صوابدید پر ہے۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کی وزیر کرسٹی نوئم نے واضح کیا ہے کہ ’جو کوئی بھی یہ سوچتا ہے کہ وہ امریکا آ سکتا ہے اور ’یہودی مخالف تشدد اور دہشت گردی‘ کی وکالت کرنے کے لیے پہلی ترمیم کے پیچھے چھپ سکتا ہے، وہ ایک بار پھر سوچے‘، محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹریشیا میک لاگلن نے کہا کہ ’آپ کا یہاں خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز سوشل میڈیا پر ایسے مواد پر غور کرے گی جس میں کسی اجنبی کی جانب سے یہود مخالف دہشت گردی، یہود مخالف دہشت گرد تنظیموں یا دیگر یہود مخالف سرگرمیوں کی حمایت، تشہیر، فروغ یا حمایت کی نشاندہی کی گئی ہو۔
یہ پالیسی فوری طور پر نافذ العمل ہوگی اور اس کا اطلاق طلبہ ویزا اور امریکا میں مستقل رہائش ’گرین کارڈ‘ کی درخواستوں پر ہوگا۔
طلبہ اور جامعات پریشان
منگل کو ٹیمی بروس ’این بی سی نیوز‘ کی صحافی اینڈریا مچل کے سوالات کا جواب دے رہی تھیں، جنہوں نے طلبہ کے ویزوں کی بڑے پیمانے پر منسوخی کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’کچھ معاملات میں، طلبہ نے کہا ہے کہ ان کے ویزے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے منسوخ کیے گئے تھے، نہ کہ احتجاج یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے‘، اینڈریا مچل نے سوال کیا کہ ’کیا اسٹوڈنٹ ویزا منسوخ کرنے کا کوئی واضح طریقہ کار یا حد ہے؟‘
ٹیمی بروس نے اس کے جواب میں محکمے کے اقدامات کا اعتراف کیا، لیکن تفصیلات فراہم نہ کرنے پر قائم رہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کبھی بھی ویزا کے عمل کی تفصیلات کا جائزہ نہیں لیا، ہم پرائیویسی کے مسائل کی وجہ سے انفرادی ویزا پر بات نہیں کرتے، ہم اعداد و شمار جاری نہیں کرتے ہیں، اور ہم انفرادی ویزوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کی پس پردہ منطق میں نہیں جاتے‘۔
لیکن محکمہ خارجہ کی جانب سے ان فیصلوں کی کوئی واضح دلیل فراہم کرنے یا اعداد و شمار ظاہر کرنے سے انکار نے بین الاقوامی طلبہ میں تشویش میں اضافہ کیا ہے۔
جامعات ویزے کی منسوخی کی بڑی تعداد سے پریشان ہیں، حالیہ ہفتوں میں ہارورڈ، یونیورسٹی آف مشی گن، اسٹینفورڈ، یو سی ایل اے اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی جیسے بڑے اداروں کے غیر ملکی طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ (ڈی ایچ ایس) نے 3 گریجویٹ طلبہ اور 2 حالیہ گریجویٹس کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں۔
بہت سے اسکولوں، بشمول کیلیفورنیا میں یو سی برکلے اور یو سی ڈیوس، کو اس حقیقت کے بعد ہی ان منسوخیوں کے بارے میں پتا چلا۔
’امریکا سے باہر نہ جائیں‘
صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ براؤن، کارنیل اور کولمبیا سمیت متعدد یونیورسٹیوں نے داخلی سفری ہدایت جاری کی ہے جس میں بین الاقوامی طلبہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک سفر کے کسی بھی منصوبے پر نظر ثانی کریں۔
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر سیزر کوہٹیموک گارسیا ہرنینڈز کا کہنا ہے کہ ’جو کوئی بھی امریکی شہری نہیں ہے اسے امریکا چھوڑنے کی ضرورت کے بارے میں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے‘۔
اگرچہ فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں کے سلسلے میں حکومت کا کریک ڈاؤن سب سے زیادہ قابل ذکر رہا ہے، لیکن ویزا منسوخی کا دائرہ وسیع ہے۔
بہت سے بین الاقوامی طلبہ اب غیر یقینی کی حالت میں رہ رہے ہیں، انہیں یقین نہیں ہے کہ آیا ان کا ویزا اسٹیٹس بغیر کسی انتباہ کے منسوخ کر دیا جائے گا یا نہیں، کچھ لوگوں کے لیے، ایک ہی احتجاج یا یہاں تک کہ سوشل میڈیا پوسٹ ملک بدری یا حراست کا سبب بن سکتی ہے۔
اس نئی حقیقت نے کیمپسز میں ایک خوفناک ماحول پیدا کر دیا ہے، جہاں طلبہ کو احتجاج یا سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، خاص طور پر ایسی سرگرمیاں جو فلسطین سے متعلق ہیں۔













لائیو ٹی وی